وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا قَرْيَةً كَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً يَأْتِيهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّن كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللَّهِ فَأَذَاقَهَا اللَّهُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا كَانُوا يَصْنَعُونَ
اللہ تعالیٰ اس بستی کی مثال بیان فرماتا ہے جو پورے امن و اطمینان سے تھی اس کی روزی اس کے پاس با فراغت ہر جگہ سے چلی آرہی تھی۔ پھر اس نے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور ڈر کا مزہ چکھایا جو بدلہ تھا ان کے کرتوتوں کا (١)۔
1۔ وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْيَةً ....: اللہ تعالیٰ نے اس سے پہلے آخرت کے عذاب کا ذکر فرمایا، اس کے بعد دنیا میں بھی کفران نعمت کی سزا خوف اور بھوک کا ذکر کیا، اس لیے آیت کی ابتدا میں واؤ عطف آئی ہے۔ (قاسمی) 2۔ كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَىِٕنَّةً ....: یعنی اس بستی کو نہ باہر سے دشمن کا کھٹکا تھا، نہ اندر سے کسی طرح کی فکر و تشویش۔ اس سے مراد کوئی بھی ایسی بستی ہو سکتی ہے، جیسے عاد و ثمود اور فرعون کی قوم کی بستیاں، مگر مکہ معظمہ میں یہ اوصاف سب سے زیادہ موجود تھے۔ پورے عرب میں کسی کو امن میسر نہ تھا، کسی بھی وقت کسی بھی قبیلے پر حملہ ہو سکتا تھا۔ مرد قتل، عورتیں اور بچے لونڈی و غلام اور مال مویشی غنیمت بن جاتے۔ کوئی سفر کرتا تو اسے اغوا کرکے بیچ دیا جاتا یا قتل کر دیا جاتا۔ ان کی معیشت بھی نہایت تنگ تھی، وہ اپنے ریوڑ لے کر پانی کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے۔ صرف مکہ میں بیت اللہ کی حرمت کی وجہ سے مکمل امن تھا اور پوری دنیا سے لوگ حج و عمرہ کے لیے آتے تو اہل مکہ کو ان سے خرید و فروخت اور کرایہ مکان وغیرہ کی صورت میں وافر رزق مل جاتا اور ہر قسم کا پھل اور سبزی اور ضرورت کی ہر چیز میسر رہتی۔ اہل مکہ سردی میں یمن کو تجارتی قافلے لے جاتے اور گرمی میں شام کو۔ ان کے قافلوں کو حرم کے احترام میں کوئی کچھ نہ کہتا، جب کہ دوسرے کسی قافلے کا زبردست جنگجوؤں کی معیت کے بغیر سفر کرنا ہی ناممکن تھا۔ ہاں حرمت کے چار مہینوں میں پورے عرب میں امن ہوتا، وہ بھی بیت اللہ کے حج و عمرہ کے احترام کی خاطر۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ قریش، سورۂ قصص (۵۷)، عنکبوت (۶۷)، آل عمران (۹۷) اور سورۂ بقرہ (۱۲۵)۔ 3۔ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ ....: ’’أَنْعُمٌ‘‘ ’’نِعْمَةٌ‘‘ کی جمع ہے، جیسا کہ ’’أَشُدٌّ‘‘ ’’شِدَّةٌ‘‘ کی۔ بعض کہتے ہیں ’’نُعْمٰي‘‘ کی جمع ہے، جیسے ’’بُؤْسٰي‘‘ کی جمع ’’أَبْؤُسٌ‘‘ ہے۔ (قرطبی) اس بستی والوں کی ناشکری اور احسان ناشناسی کی وجہ سے امن و اطمینان کی جگہ خوف و ہراس نے اور فراخی ٔ رزق کی جگہ بھوک نے انھیں اس طرح گھیر لیا جیسے کپڑا اپنے پہننے والے کو گھیر لیتا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کے کلام میں عجیب جامعیت ہے، بھوک اور خوف کی تلخی کے اظہار کے لیے ’’ فَاَذَاقَهَا ‘‘ (اس کو چکھایا) کا لفظ استعمال فرمایا اور اس عذاب کے چمٹ جانے کو لباس بن جانے کے ساتھ تعبیر کیا اور ایک لمبی بات کو دو لفظوں میں سمیٹ دیا۔ اس استعارے کی لذت مومن عالم ہی اٹھا سکتا ہے، اس جاہل و ملحد کو اس لذت کی کیا خبر جس نے کہا کہ بھلا لباس بھی چکھا جاتا ہے؟