مَن كَفَرَ بِاللَّهِ مِن بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَٰكِن مَّن شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
جو شخص اپنے ایمان کے بعد اللہ سے کفر کرے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو (١) مگر جو لوگ کھلے دل سے کفر کریں تو ان پر اللہ کا غضب ہے اور انہی کے لئے بہت بڑا عذاب ہے۔
1۔ مَنْ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ اِيْمَانِهٖ ....: طبری نے معتبر سند کے ساتھ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما کا قول نقل فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : (( مَنْ كَفَرَ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِهِ فَعَلَيْهِ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ وَلَهُ عَذَابٌ عَظِيْمٌ فَأَمَّا مَنْ أُكْرِهَ فَتَكَلَّمَ بِهِ لِسَانُهُ وَ خَالَفَهُ قَلْبُهُ بِالْإِيْمَانِ لِيَنْجُوَ بِذٰلِكَ مِنْ عَدُوِّهِ فَلَا حَرَجَ عَلَيْهِ لِأَنَّ اللّٰهَ تَأْخُذُ الْعِبَادَ بِمَا عَقَدَتْ عَلَيْهِ قُلُوْبُهُمْ )) [ طبری : ۱۷ ؍۳۰۵ ] ’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے اس پر اللہ تعالیٰ کا بھاری غضب ہے اور اس کے لیے عذاب عظیم ہے، لیکن جسے مجبور کر دیا جائے اور وہ زبان سے کوئی بات کہہ دے، جب کہ اس کا دل ایمان کی وجہ سے اس کے خلاف ہو، تاکہ اس کے ساتھ دشمن سے جان بچا لے تو اس پر کوئی گناہ نہیں، کیونکہ اللہ سبحانہ بندوں کو صرف اس چیز پر پکڑتا ہے جو ان کے دلوں کا پکا عقیدہ ہو۔‘‘ 2۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( كَانَ أَوَّلَ مَنْ أَظْهَرَ إِسْلَامَهُ سَبْعَةٌ : رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبُوْ بَكْرٍ، وَعَمَّارٌ، وَأُمُّهُ سُمَيَّةُ، وَصُهَيْبٌ، وَبِلاَلٌ، وَالْمِقْدَادُ، فَأَمَّا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنَعَهُ اللّٰهُ بِعَمِّهِ أَبِيْ طَالِبٍ، وَأَمَّا أَبُوْ بَكْرٍ فَمَنَعَهُ اللّٰهُ بِقَوْمِهِ، وَأَمَّا سَائِرُهُمْ، فَأَخَذَهُمُ الْمُشْرِكُوْنَ وَأَلْبَسُوْهُمْ أَدْرَاعَ الْحَدِيْدِ وَ صَهَرُوْهُمْ فِي الشَّمْسِ، فَمَا مِنْهُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ وَاتَاهُمْ عَلٰی مَا أَرَادُوْا، إِلَّا بِلاَلاً، فَإِنَّهُ هَانَتْ عَلَيْهِ نَفْسُهُ فِي اللّٰهِ، وَهَانَ عَلٰی قَوْمِهِ، فَأَخَذُوْهُ، فَأَعْطَوْهُ الْوِلْدَانَ، فَجَعَلُوْا يَطُوْفُوْنَ بِهِ فِيْ شِعَابِ مَكَّةَ وَهُوَ يَقُوْلُ : أَحَدٌ، أَحَدٌ )) [ابن ماجہ، السنۃ، باب فضل سلمان و أبی ذر والمقداد رضی اللّٰہ عنھم اجمعین : ۱۵۰، قال البوصیري رجالہ ثقات و قال الحاکم صحیح الإسناد و أقرہ الذھبی، وقال الألباني حسن ] ’’سب سے پہلے جن لوگوں نے اپنے اسلام کا اظہار کیا وہ سات آدمی تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر، عمار، ان کی والدہ سمیہ، صہیب، بلال اور مقداد رضی اللہ عنھم ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے چچا ابوطالب کے ذریعے سے محفوظ رکھا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے ان کی قوم کے ذریعے سے محفوظ رکھا۔ باقی سب کو مشرکین نے پکڑا اور انھیں لوہے کی زرہیں پہنا کر دھوپ میں جھلسنے کے لیے پھینک دیا، چنانچہ وہ جتنے تھے سب نے اس کے مطابق کہہ دیا جو کفار چاہتے تھے سوائے بلال رضی اللہ عنہ کے۔ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں اس کے نزدیک اس کی جان بے قدر و قیمت ٹھہری (اور اس نے اس کی کوئی پروا نہ کی) اور وہ ان لوگوں کی نظر میں ایسا بے قدر و قیمت ٹھہرا کہ انھوں نے اسے پکڑ کر بچوں کو دے دیا، وہ اسے لے کر مکہ کی گھاٹیوں میں گھومتے پھرتے اور وہ احد احد (اللہ ایک ہے، ایک ہے) کہتا رہتا۔‘‘ 3۔ اوپر کفار کے شبہات ذکر کرکے اس شخص کا حکم بیان فرمایا جو ایسے شبہات سے متاثر ہو کر ایمان سے پھر جائے اور شرح صدر کے ساتھ کفر قبول کر لے کہ اس پر رب تعالیٰ کا بھاری غضب ہے اور اس کے لیے عذاب عظیم ہے۔ ’’ اِلَّا مَنْ اُكْرِهَ ‘‘ کے ساتھ اس شخص کے بارے میں فرمایا جس پر کوئی ظالم جبر کرے اور وہ اپنی جان بچانے کی خاطر کلمۂ کفر زبان سے کہہ دے، یہ رخصت ہے، لیکن اگر کوئی شخص مرنا قبول کر لے اور منہ سے بھی کلمۂ کفر یا خلاف اسلام کوئی بات نہ نکالے تو یہ عزیمت ہے اور ایسا شخص بہت بڑا شہید ہو گا، جیسا کہ اللہ کے پیغمبروں مثلاً ابراہیم اور مسیح علیھما السلام نے موت کے خوف سے کلمۂ کفر نہیں کہا اور شہادت قبول کی، یہ الگ بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں بچا لیا۔ اسی طرح اصحاب الاخدود کا اور سورۂ یس میں مذکور شہید ہونے والے شخص کا واقعہ ہے اور اسلام میں تو اس کی بے شمار مثالیں ہیں، جیسا کہ بلال رضی اللہ عنہ اور دوسرے اصحاب و تابعین۔ 4۔ بعض لوگوں نے جو ابوبکر، عمر، عثمان اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے بغض رکھتے ہیں، جب دیکھا کہ علی، حسن، حسین اور دوسرے بنی ہاشم رضی اللہ عنھم نے تینوں خلفاء کی بیعت کر لی، جو ان کے خلیفہ برحق ہونے کی دلیل ہے تو ان دشمنانِ صحابہ نے یہ بات بنائی کہ انھوں نے یہ کام مجبوری کی بنا پر تقیہ سے کیا تھا، حالانکہ تقیہ تو ایک رخصت ہے جو کمزور لوگوں کا کام ہے، شیر خدا بھی تقیہ کرے تو حق کا اعلان اور عزیمت پر عمل کون کرے گا۔ پھر تقیہ کا بہانہ بنانے والوں کی کتاب ’’الکافی‘‘ میں لکھا ہے کہ ان کے امام اپنی موت کا وقت جانتے ہیں اور ان کی مرضی ہوتی ہے تو مرتے ہیں۔ تو ان کے قول کے مطابق پہلے امام علی رضی اللہ عنہ کو جب اپنی موت کا علم تھا کہ عبد الرحمن بن ملجم کے ہاتھوں ہو گی تو انھیں کون سی مجبوری تھی کہ خلفائے ثلاثہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے، یا عمر بن خطاب( رضی اللہ عنہ ) سے اپنی لخت جگر ام کلثوم کا نکاح کرتے؟ 5۔ علماء نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ زبردستی کروایا ہوا کوئی قول یا فعل معتبر نہیں، اس سے نہ طلاق واقع ہوتی ہے، نہ نکاح، نہ غلام آزاد کرنا، نہ کسی کے نام جائداد لگوانا، نہ کوئی اقرار یا انکار یا کفر یہ بات کرنا، ہاں جو کچھ وہ شرح صدر کے ساتھ کرے وہ معتبر ہو گا۔ (سیوطی فی الاکلیل) 6۔ فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِ : دنیا میں اللہ کا بڑا غضب یہ ہے کہ مرتد ہونے والا مرد ہو یا عورت اگر توبہ نہ کرے تو اس کا قتل واجب ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ بَدَّلَ دِيْنَهُ فَاقْتُلُوْهُ )) [ بخاری، استتابۃ المرتدین والمعاندین و قتالھم، باب حکم المرتد....: ۶۹۲۲ ] ’’جو شخص اپنا دین بدلے اسے قتل کر دو۔‘‘ اور آخرت میں عذاب عظیم کی عظمت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ 7۔ بعض لوگوں نے اپنے پاس سے کہا کہ عورت مرتد ہو جائے تو قتل نہیں کی جائے گی، یہ بات درست نہیں، کیونکہ ’’مَنْ‘‘ میں مرد و عورت سبھی شامل ہیں اور عورت کے مستثنیٰ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔