الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ ۚ فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ
حرمت والے مہینے حرمت والے مہینوں کے بدلے ہیں اور حرمتیں ادلے بدلے کی ہیں (٣) جو تم پر زیادتی کرے تم بھی اس پر اسی کے مثل زیادتی کرو جو تم پر کی ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب ذوالقعدہ ۶ ھ میں عمرہ کے لیے تشریف لے گئے تو کفار نے مزاحمت کی اور عمرہ سے روک دیا، مگر آخرکار صلح ہو گئی اور قرار پایا کہ مسلمان آئندہ سال عمرہ کر لیں۔ یہ معاہدہ صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے، پھر جب دوسرے سال ۷ھ میں مسلمان عمرہ کے لیے روانہ ہوئے تو انھیں اندیشہ ہوا کہ ماہ حرام اور حرم مکہ میں تولڑائی منع ہے، لیکن اگر کفار نے بد عہدی کی اور ہمیں عمرہ سے روک دیا تو ہم کیا کریں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔(ابن کثیر) یعنی (حرمت والے مہینوں کی حرمت کی پاس داری کفار کی طرف سے ان کی حرمت کی پاس داری کے مقابلے میں ہے) اگر وہ حرام مہینوں کا لحاظ نہ کریں تو تم بھی نہ کرو اور اگر وہ بدعہدی کریں تو تم بھی حرم کا لحاظ مت کرو۔ (قرطبی، ابن کثیر) واضح رہے کہ حرمت والے مہینے چار ہیں، ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور رجب۔ اگرچہ زیادتی کے جواب کو زیادتی نہیں کہا جاتا بلکہ وہ عین حق ہے، مگر یہ صرف لفظ کی حد تک مشابہت ہے کہ”فَمَنِ اعْتَدٰى“کے مقابلے میں لفظ ”فَاعْتَدُوْا“آیا ہے، جیسے فرمایا:﴿وَ جَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ﴾ [الشوریٰ:۴۰ ] ’’ اور کسی برائی کا بدلہ اس کی مثل ایک برائی ہے۔‘‘