وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَمِيٌّ وَهَٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ
ہمیں بخوبی علم ہے کہ یہ کافر کہتے ہیں کہ اسے تو ایک آدمی سکھاتا ہے (١) اس کی زبان جس کی طرف یہ نسبت کر رہے ہیں عجمی ہے اور یہ قرآن تو صاف عربی زبان میں ہے (٢)۔
1۔ وَ لَقَدْ نَعْلَمُ اَنَّهُمْ يَقُوْلُوْنَ ....: یہ قرآن پر ان کا دوسرا طعن تھا۔ اس شخص کی تعیین میں کئی روایات ہیں، بعض میں اس کا نام بلعام بتایا گیا ہے، بعض میں مقیس، بعض میں ابن الحضرمی کا ایک غلام۔ مگر ان میں سے صحیح روایت وہ ہے جو عبد اللہ بن مسلم الحضرمی نے بیان کی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ ہمارے دو عیسائی غلام تھے جو ’’عین التمر‘‘ کے باشندے تھے۔ ایک کا نام یسار تھا، دوسرے کا جبر، وہ دونوں اپنی کوئی کتاب پڑھا کرتے تھے، بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرتے تو ٹھہر جاتے۔ مشرکین کہنے لگے، محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ان دونوں سے سیکھتا ہے، تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (طبری : ۲۲۰۷۳) ’’الاستيعاب في بيان الاسباب‘‘ میں اسے صحیح اور دوسری روایات کو ضعیف کہا گیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ’’الاصابة‘‘ میں اسے صحیح کہا ہے۔ بہرحال صرف چند لمحے اس شخص کے پاس ٹھہرنے سے انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا شاگرد اور قرآن کو اس کا کلام ہونے کا بہتان جڑ دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جس کی طرف یہ لوگ غلط نسبت کر رہے ہیں وہ خود عجمی ہے، جبکہ قرآن فصیح ترین عربی ہے۔ 2۔ آلوسی نے فرمایا : ’’قرآن نے اس شخص کے نام کی تصریح نہیں کی، حالانکہ اس میں کفار کا جھوٹ زیادہ واضح ہوتا، اس لیے کہ بتانا یہ مقصود ہے کہ ان کی اصل غلطی کسی خاص شخص کو آپ کا معلم قرار دینا نہیں بلکہ کسی بھی بشر کو آپ کا معلم قرار دینا ہے۔‘‘ روح القدس کے ذریعے سے نازل شدہ اللہ کے کلام کی اس سے بڑھ کر کیا توہین ہو گی کہ اسے کسی آدمی کا کلام کہا جائے، خواہ وہ کتنا بڑا عالم ہو۔