وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِن بَعْدِ قُوَّةٍ أَنكَاثًا تَتَّخِذُونَ أَيْمَانَكُمْ دَخَلًا بَيْنَكُمْ أَن تَكُونَ أُمَّةٌ هِيَ أَرْبَىٰ مِنْ أُمَّةٍ ۚ إِنَّمَا يَبْلُوكُمُ اللَّهُ بِهِ ۚ وَلَيُبَيِّنَنَّ لَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ
اور اس عورت کی طرح نہ ہوجاؤ جس نے اپنا سوت مضبوط کاتنے کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کرکے توڑ ڈالا (١) کہ تم اپنی قسموں کو آپس کے مکر کا باعث ٹھہراؤ (٢) اس لئے کہ ایک گروہ دوسرے گروہ سے بڑھا چڑھا ہوجائے (٣) بات صرف یہی ہے کی اس عہد سے اللہ تمہیں آزما رہا ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہارے لئے قیامت کے دن ہر اس چیز کو کھول کر بیان کر دے گا جس میں تم اختلاف کر رہے تھے۔
1۔ وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِيْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا....: ’’غَزْلٌ‘‘ مصدر بمعنی مفعول ہے، فعل ’’غَزَلَ يَغْزِلُ‘‘ (ض) آتا ہے، روئی یا اون کا سوت (دھاگا) بنانا۔ ’’ اَنْكَاثًا ‘‘ ’’نِكْثٌ‘‘ (نون کے کسرہ کے ساتھ) کی جمع ہے، ٹکڑے۔ 2۔ یہ ایک تشبیہ ہے جو قسموں کو پختہ کرنے کے بعد ان کو توڑنے والوں کے لیے بیان کی گئی ہے، ضروری نہیں کہ ایسی عورت کہیں پائی بھی گئی ہو، جو عورت بھی ایسا کرے گی اسے یہی کہا جائے گا کہ یہ کتنی احمق ہے۔ اسی طرح قسمیں توڑنے والوں کا حال بھی اس عورت کا سا ہے، اگرچہ ابن جریر اور ابن ابی حاتم کی بعض روایات میں ہے کہ مکہ میں ایک پاگل عورت تھی جو سوت کاتتی تھی اور پھر اسے بٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتی تھی۔ 3۔ تَتَّخِذُوْنَ اَيْمَانَكُمْ دَخَلًۢا....: ’’ دَخَلًۢا ‘‘ سے مراد دھوکا، فریب اور کھوٹ ہے۔ اصل میں ’’ دَخَلًۢا ‘‘ اس چیز کو کہتے ہیں جو دوسری چیز میں داخل کر دی جائے، جب کہ وہ اس میں سے نہ ہو، مثلاً چائے کی پتی میں چنے کے چھلکے ملا دیے جائیں۔ ’’اَرْبٰى‘‘ ’’رَبَا يَرْبُوْ‘‘ (ن) سے اسم تفضیل ہے، کسی چیز کا زیادہ ہونا، بڑھنا۔ 4۔ یعنی کسی گروہ سے اس لیے بدعہدی نہ کرو کہ جب تم نے عہد باندھا اس وقت تم کمزور تھے اور وہ گروہ طاقتور تھا اور اب تم طاقتور اور وہ کمزور ہو گیا ہے، یا اب تمھیں اس سے زیادہ طاقتور کوئی دوسرا حلیف مل گیا ہے، جیسا کہ اہل جاہلیت کرتے تھے۔ (شوکانی، قرطبی) اور جیسا کہ اس زمانے میں اہل مغرب بلکہ تمام کفار کا عام دستور ہے۔ 5۔ اِنَّمَا يَبْلُوْكُمُ اللّٰهُ بِهٖ : کہ تم اپنے عہد پر قائم رہتے ہو یا دوسرے گروہ کو طاقتور یا کمزور پاکر اپنے عہد کا خیال چھوڑ دیتے ہو۔ (قرطبی)