وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدتُّمْ وَلَا تَنقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا ۚ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ
اور اللہ تعالیٰ کے عہد کو پورا کرو جب کہ تم آپس میں قول و قرار کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد مت توڑو، حالانکہ تم اللہ تعالیٰ کو اپنا ضامن ٹھہرا چکے ہو (١) تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کو بخوبی جان رہا ہے۔
1۔ وَ اَوْفُوْا بِعَهْدِ اللّٰهِ اِذَا عٰهَدْتُّمْ : احکام الٰہی پورے کرنے کا عہد جو ایمان لانے کی صورت میں کیا ہے، یا آپس میں ایک دوسرے سے جائز طور پر کیے گئے عہد و پیمان۔ (شوکانی) ’’ عٰهَدْتُّمْ ‘‘ باب مفاعلہ سے ہے، مراد کسی دوسرے کے ساتھ کیا ہوا عہد ہے۔ 2۔ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيْدِهَا....: پکا کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ جن قسموں کو پکا نہ کیا گیا ہو ان کا توڑنا جائز ہے، کیونکہ ہر وہ عہد جس پر قسم کھائی جائے اس پر اللہ تعالیٰ کو ضامن بنایا جاتا ہے اور وہ پکا ہو جاتا ہے اور اسے بلاعذر توڑنا جائز نہیں، بلکہ عہد توڑنا نفاق کی علامت ہے۔ بعض قسمیں انسان خود اٹھا لیتا ہے کہ میں ایسا کروں گا یا نہیں کروں گا۔ اگر انھیں پورا نہ کر سکے تو اس کا کفارہ سورۂ مائدہ (۸۹) میں مذکور ہے۔ اسی طرح لغو قسم کا حکم سورۂ بقرہ (۲۲۵) اور سورۂ مائدہ (۸۹) میں گزر چکا ہے۔ 3۔ جس قسم کے متعلق معلوم ہو جائے کہ اس کا پابند نہ رہنا دینی لحاظ سے بہتر ہے تو وہ قسم توڑ دے اور وہ کام کرے جو بہتر ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنْ حَلَفَ عَلٰی يَمِيْنٍ فَرَأَی غَيْرَهَا خَيْرًا مِّنْهَا، فَلْيُكَفِّرْ عَنْ يَمِيْنِهِ وَلْيَفْعَلْ )) [مسلم، الأیمان و النذور، باب ندب من حلف یمینًا فرأی غیرھا خیرَا منہا أن یأتی....: ۱۲ ؍۱۶۵۰ ] ’’جو شخص کسی بات پر قسم کھائے، پھر اس کے علاوہ دوسرے کام کو اس سے زیادہ اچھا سمجھے تو وہ (دوسرا) کام اختیار کرے اور اپنی قسم کا کفارہ دے دے۔‘‘ 4۔ اگر کسی ناجائز کام کا عہد کرے یا قسم اٹھائے تو اسے پورا کرنا جائز نہیں۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۲۴)۔