سورة النحل - آیت 90

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَيَنْهَىٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ عدل کا، بھلائی کا اور قرابت داروں کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی کے کاموں، ناشائستہ حرکتوں اور ظلم و زیادتی سے روکتا ہے، (١) وہ خود تمہیں نصیحتیں کر رہا ہے کہ تم نصیحت حاصل کرو۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اِنَّ اللّٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ: عدل کا معنی اپنے عقیدے اور عمل میں زیادتی یا کمی سے بچ کر اعتدال اور درمیانہ راستہ اختیار کرنا ہے۔ انصاف بھی یہی ہے اور قسط بھی۔ ’’ الْاِحْسَانِ ‘‘ کا لفظ دو طرح آتا ہے، ایک ’’إِلٰی‘‘ یا کسی اور حرف کے واسطے کے بغیر، اس کا معنی کام کو بہت اچھی طرح اور پختگی و مضبوطی سے کرنا ہوتا ہے، مثلاً ’’أَحْسَنْتُهٗ ‘‘ کہ میں نے یہ کام بہت اچھی طرح کیا، اور ایک ’’إِلٰی‘‘ وغیرہ کے واسطے کے ساتھ، جیسے ’’أَحْسَنْتُ اِلَيْهِ‘‘ کہ میں نے اس سے اچھا سلوک کیا، یعنی اس ’’اِحْسَانٌ‘‘ کا معنی اللہ کی مخلوق کو نفع پہنچانا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ساری مخلوق کو پیدا کرنے اور ہر نعمت عطا فرمانے کا تقاضا یہ ہے کہ نہ تو اس کے حق میں تفریط (کمی) کی جائے نہ افراط (زیادتی)۔ کمی یہ ہے کہ اس کی ذات کا انکار کیا جائے، یا اس کی صفات (جس طرح اس نے بیان فرمائی ہیں) میں سے کسی صفت کا انکار کیا جائے، اسے تعطیل کہتے ہیں، یا اسے مخلوق کے مشابہ کہا جائے، اسے تشبیہ کہتے ہیں۔ یا اس کا مطلب ایسا نکالا جائے جس سے اس صفت کا انکار لازم آتا ہو، اسے باطل تاویل یا تحریف کہتے ہیں۔ یا کہا جائے کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ اللہ کی صفات مثلاً سمیع یا بصیر وغیرہ کا مطلب کیا ہے، یہ اللہ ہی جانتا ہے، یہ بھی انکار ہی کی ایک صورت ہے، اسے تفویض کہتے ہیں۔ یہ سب اس رحمن کے حق میں تفریط (کمی) ہے اور عدل و قسط کے خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں افراط (زیادتی) یہ ہے کہ کسی مخلوق کو اس کی ذات یا کسی صفت میں اس کا شریک مانا جائے، یہ اس اکیلے خالق و مالک کے ساتھ سخت ناانصافی اور ظلم عظیم ہے۔ اس لیے ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اس آیت میں مذکور عدل کا معنی ’’لا الٰہ الا اللہ‘‘ کی شہادت قرار دیا ہے۔ (طبری بسند حسن : ۲۱۹۹۵) مخلوق کے بارے میں عدل یہ ہے کہ کسی کو اس کے حق سے نہ کم دیا جائے نہ زیادہ، بلکہ ہر ایک کو اس کا حق پورا پورا دیا جائے، خواہ اپنی ذات پر بوجھ آتا ہو، یا جن کے درمیان آپ فیصلہ کر رہے ہیں ان میں سے کسی ایک سے آپ کی دشمنی یا دوستی ہو، تو کسی کا حق پورا دینے میں وہ دشمنی یا دوستی حائل نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بہت تاکید فرمائی ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ﴾ [ النساء : ۵۸ ] ’’اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰى اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ﴾ [ المائدۃ : ۸ ] ’’اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں ہر گز اس بات کا مجرم نہ بنا دے کہ تم عدل نہ کرو۔ عدل کرو، یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْا قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّٰهِ وَ لَوْ عَلٰى اَنْفُسِكُمْ اَوِ الْوَالِدَيْنِ وَ الْاَقْرَبِيْنَ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْرًا فَاللّٰهُ اَوْلٰى بِهِمَا ﴾ [ النساء : ۱۳۵ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے، اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ، خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو، اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔‘‘ 2۔ ’’ الْاِحْسَانِ ‘‘ کا مطلب اگر کام کو اچھی طرح کرنا ہو تو اس کی وضاحت حدیث جبریل علیہ السلام میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل علیہ السلام کے سوال کہ احسان کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں فرمایا : (( أَنْ تَعْبُدَ اللّٰهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَّمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ )) [ بخاری، الإیمان، باب سؤال جبریل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم عن الإیمان و الإسلام.....: ۵۰۔ مسلم : ۸ ] ’’احسان یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو، سو اگر تم اسے نہ دیکھتے ہو تو وہ تمھیں دیکھتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے نگرانی کے احساس کے ساتھ ہر کام کرنے والا کام کو اچھے سے اچھا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ پھر ہر کام نماز، روزہ، صدقہ، حج، تجارت، صنعت، زراعت اور مزدوری کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی نگرانی دل میں حاضر ہو کہ پروردگار عالم مجھے دیکھ رہا ہے، تو یقیناً انسان ہر عمل بہترین طریقے سے کرے گا اور ہر گناہ سے بچے گا۔ اور اگر ’’إِلٰي‘‘ کی وجہ سے کسی دوسرے پر احسان مراد ہو تو اس کی بہترین مثال بنی اسرائیل کا قارون سے یہ کہنا ہے : ﴿ وَ اَحْسِنْ كَمَا اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ ﴾ [ القصص : ۷۷ ] ’’اور احسان کر جیسے اللہ نے تجھ پر احسان کیا ہے۔‘‘ اللہ نے انسان کو جو کچھ دیا ہے کسی بدلے کی خاطر نہیں دیا، بلکہ یہ اس کا احسان اور بے حد لطف و کرم ہے کہ اس نے مخلوق کے کسی حق کے بغیر جو اللہ کے ذمے ہو، ہر نعمت انھیں مفت دی۔ مقصد یہ کہ انسان مخلوق کے ساتھ اس سے کسی معاوضے کی امید کے بغیر اچھا سلوک کرے، اسے اس کے حق سے زیادہ دے دے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ بھی احسان کا حکم دیا اور بتایا کہ کس طرح ایک فاحشہ عورت کتے کو پانی پلانے کے عوض جنت میں گئی اور ایک عورت بلی کو باندھ کر بھوکا مارنے کی پاداش میں جہنم میں گئی۔ (دیکھیے بخاری، ۳۳۲۱، ۲۳۶۵) حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ اللّٰهَ كَتَبَ الْإِحْسَانَ عَلٰی كُلِّ شَيْءٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوْا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُكُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ)) [مسلم، الصید والذبائح، باب الأمر بإحسان الذبح والقتل....: ۱۹۵۵، عن شداد بن أوس رضی اللہ عنہ ] ’’اللہ نے ہر چیز پر احسان کرنا فرض کیا ہے، تو جب قتل کرو تو اس کا اچھا طریقہ اختیار کرو (یعنی ایذا دے دے کر نہ مارو اور نہ مثلہ کرو) اور جب ذبح کرو تو اچھے طریقے سے کرو، اپنی چھری کو تیز کر لو اور اپنے ذبیحے کو آرام پہنچاؤ۔‘‘ قرآن مجید میں کئی جگہ احسان کا حکم اور اس کی فضیلت مذکور ہے، فرمایا : ﴿ وَ بِالْوَالِدَيْنِ۠ اِحْسَانًا ﴾ [ البقرۃ : ۸۳۔ بنی إسرائیل : ۲۳ ] ’’اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۱۹۵ ] ’’اور نیکی کرو، بے شک اللہ نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ [ الأعراف : ۵۶ ] ’’بے شک اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں کے قریب ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ [ العنکبوت : ۶۹ ] ’’اور بلاشبہ اللہ یقیناً نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ وَ اِيْتَآئِ ذِي الْقُرْبٰى: اگرچہ یہ بھی احسان میں شامل تھا، مگر اس کی خاص تاکید کے لیے اسے الگ بھی بیان فرمایا، کیونکہ قرابت والوں کا حق زیادہ ہے اور انھیں دینا ویسے بھی مشکل ہوتا ہے، کیونکہ وہ کم ہی احسان مند ہوتے ہیں اور باہمی رنجشیں بھی دینے لینے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں۔ ’’ ذِي الْقُرْبٰى ‘‘ کو دینے کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ روم (۳۸)، بنی اسرائیل (۲۶)، بقرہ (۱۷۷) اور سورۂ بلد (۱۴، ۱۵) وغیرہ۔ وَ يَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْيِ : ’’الْفَحْشَآءِ ‘‘ وہ گناہ جو برائی میں حد سے بڑھے ہوئے ہوں، مثلاً زنا اور قوم لوط کا عمل، سورۂ بقرہ میں شدید بخل کو بھی ’’ الْفَحْشَآءِ ‘‘ فرمایا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۶۸) ’’ الْمُنْكَرِ ‘‘ ایسی برائیاں جن کا عقل انکار کرتی ہو اور فطرت انسانی بھی انھیں برا سمجھتی ہو۔ ’’الْبَغْيِ ‘‘ کسی پر ظلم، زیادتی، زبان درازی یا دست درازی کرنا، سرکشی کرنا۔ 5۔ اس آیت میں تین بھلائیوں (عدل، احسان، ایتاء ذی القربیٰ) کا حکم دیا گیا ہے، جن میں تمام بنیادی نیکیاں آ جاتی ہیں اور تین برائیوں (فحشاء، منکر، بغی) سے منع کیا گیا ہے جو مسلمانوں کے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات کو بگاڑ کر رکھ دینے والی ہیں، اس لیے یہ قرآن مجید کی جامع ترین آیات میں سے ہے۔