وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِم مِّنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَجِئْنَا بِكَ شَهِيدًا عَلَىٰ هَٰؤُلَاءِ ۚ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ تِبْيَانًا لِّكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَىٰ لِلْمُسْلِمِينَ
اور جس دن ہم ہر امت میں انہی میں سے ان کے مقابلے پر گواہ کھڑا کریں گے اور تجھے ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے (١) اور ہم نے تجھ پر یہ کتاب نازل فرمائی ہے جس میں ہر چیز کا شافی بیان ہے (٢) اور ہدایت اور رحمت اور خوشخبری ہے مسلمانوں کے لئے۔
1۔ وَ يَوْمَ نَبْعَثُ فِيْ كُلِّ اُمَّةٍ....: اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۱۴۳) اور سورۂ نساء کی آیت (۴۱) ’’ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ‘‘ سے مراد خود ان کے چمڑوں اور دوسرے اعضاء کی شہادت بھی ہو سکتی ہے۔ دیکھیے سورۂ حٰمٓ السجدہ (۲۰، ۲۱)۔ 2۔ وَ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتٰبَ تِبْيَانًا....: ’’ تِبْيَانًا ‘‘ مصدر ہے، بیان میں مبالغہ ہے، بہت اچھی طرح بیان کرنا، یعنی حلال و حرام اور ہر اس چیز کا واضح بیان ہے جس پر دنیا و آخرت میں انسان کی ہدایت و گمراہی اور کامیابی اور ناکامی کا انحصار ہے، پھر جن احکام کو قرآن نے مختصر طور پر بیان کیا ہے، یا ان کا بیان چھوڑ دیا ہے ان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع فرض قرار دے کر سنت و حدیث کی طرف رجوع کا حکم دیا ہے۔ 3۔ لِكُلِّ شَيْءٍ : قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ اس میں ہر چیز کا واضح بیان ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ فرمایا : ((لَعَنَ اللّٰهُ الْوَاشِمَاتِ وَالْمُوْتَشِمَاتِ، وَالْمُتَنَمِّصَاتِ وَالْمُتَفَلِّجَاتِ لِلْحُسْنِ، الْمُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللّٰهِ، فَبَلَغَ ذٰلِكَ امْرَأَةً مِنْ بَنِيْ أَسَدٍ يُقَالُ لَهَا أُمُّ يَعْقُوْبَ، فَجَاءَتْ فَقَالَتْ إِنَّهُ بَلَغَنِيْ أَنَّكَ لَعَنْتَ كَيْتَ وَكَيْتَ، فَقَالَ وَمَا لِيْ لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِيْ كِتَابِ اللّٰهِ ؟ فَقَالَتْ لَقَدْ قَرَأْتُ مَا بَيْنَ اللَّوْحَيْنِ فَمَا وَجَدْتُ فِيْهِ مَا تَقُوْلُ، فَقَالَ لَئِنْ كُنْتِ قَرَأْتِيْهِ لَقَدْ وَجَدْتِيْهِ، أَمَا قَرَأْتِ : ﴿ وَ مَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا » قَالَتْ : بَلٰہ، قَالَ فَإِنَّهُ قَدْ نَهَی عَنْهُ )) [ بخاری، التفسیر، سورۃ الحشر، باب : ﴿ وما اٰتاکم الرسول فخذوہ....﴾: ۴۸۸۶ ]’’اللہ تعالیٰ نے ان عورتوں پر لعنت فرمائی جو جلد میں سوئی کے ذریعے سے نیل کے ساتھ نقش و نگار بناتی ہیں اور جو بنواتی ہیں اور جو چہرے کے بال اکھڑواتی ہیں اور جو دانتوں کے درمیان فاصلہ کرواتی ہیں، اللہ کی پیدا کردہ چیز کو بدلتی ہیں۔‘‘ بنو اسد کی ایک خاتون ام یعقوب نامی کو یہ بات پہنچی تو وہ آئی اور کہنے لگی : ’’مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ نے ایسی ایسی عورتوں پر لعنت کی ہے؟‘‘ انھوں نے فرمایا: ’’میں اس پر کیوں لعنت نہ کروں جس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو اللہ کی کتاب میں بھی ہے۔‘‘ اس نے کہا : ’’میں نے دونوں تختیوں کے درمیان (پورا قرآن) پڑھا ہے، اس میں تو تمھاری یہ بات مجھے نہیں ملی۔‘‘ فرمایا : ’’اگر تو نے اسے پڑھا ہوتا تو تجھے مل جاتا، کیا تم نے یہ نہیں پڑھا : ﴿ وَ مَا اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ﴾ [ الحشر : ۷ ] ’’اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ۔‘‘ اس نے کہا : ’’کیوں نہیں؟‘‘ فرمایا : ’’پھر بات یہ ہے کہ ان کاموں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن کے اپنے الفاظ کے مطابق اس میں ہر چیز کے بیان کا مطلب یہ ہے کہ دین کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے ہر حکم پر عمل کرنا اور ہر نہی سے باز رہنا بھی قرآن ہی کا حصہ ہے۔ مفسر شعراوی نے یہاں شیخ محمد عبدہ مصری کا ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک دفعہ میں پیرس میں تھا، ایک مستشرق (غیر مسلم عربی عالم) نے مجھ سے کہا کہ قرآن میں ہے : ﴿ مَا فَرَّطْنَا فِي الْكِتٰبِ مِنْ شَيْءٍ ﴾ [ الأنعام : ۳۸ ] ’’ہم نے کتاب میں کسی چیز کی کمی نہیں چھوڑی۔‘‘ میں نے کہا، ہاں ٹھیک ہے۔ اس نے کہا، اچھا یہ بتاؤ کہ ایک اردب (تقریباً ۴۸ کلو) آٹے کی کتنی روٹیاں بنتی ہیں؟ میں نے کہا، یہ معمولی بات ہے، آؤ کسی روٹیاں پکانے والے سے پوچھ لیتے ہیں۔ اس نے کہا، نہیں، میں قرآن میں دیکھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا، قرآن نے تو بتا دیا ہے : ﴿ فَسْـَٔلُوْا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ﴾ [ الأنبیاء : ۷ ] ’’اگر تم نہیں جانتے تو اہل الذکر (اسے سمجھنے والے) سے پوچھ لو۔‘‘ غرض قرآن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے۔ مزید تفصیل اسی سورت کی آیت (۶۴) اور اس کے حواشی میں ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةً وَّ بُشْرٰى لِلْمُسْلِمِيْنَ: یہاں تینوں لفظ اسم فاعل کے بجائے مصدر ذکر فرمائے ہیں، مثلاً ’’ هَادِيٌ ‘‘ کے بجائے ’’ هُدًى ‘‘ اور اسی طرح ’’ رَحْمَةً ‘‘ اور ’’ بُشْرٰى ‘‘ فرمایا ہے، ایسا مبالغہ کے لیے کیا جاتا ہے، مثلاً زید کو بہت ہی زیادہ عادل کہنا ہو تو ’’زَيْدٌ عَادِلٌ‘‘ کے بجائے کہتے ہیں ’’زَيْدٌ عَدْلٌ‘‘ یعنی زید عین عدل ہے۔ مقصد یہ کہ قرآن مسلمانوں کے لیے ہدایت، رحمت اور بشارت ہے۔