وَإِذَا رَأَى الَّذِينَ أَشْرَكُوا شُرَكَاءَهُمْ قَالُوا رَبَّنَا هَٰؤُلَاءِ شُرَكَاؤُنَا الَّذِينَ كُنَّا نَدْعُو مِن دُونِكَ ۖ فَأَلْقَوْا إِلَيْهِمُ الْقَوْلَ إِنَّكُمْ لَكَاذِبُونَ
جب مشرکین اپنے شریکوں کو دیکھ لیں گے تو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! یہی وہ ہمارے شریک ہیں جنہیں ہم تجھے چھوڑ کر پکارا کرتے تھے، پس وہ انھیں جواب دیں گے کہ تم بالکل ہی جھوٹے ہو (٢)
وَ اِذَا رَاَ الَّذِيْنَ اَشْرَكُوْا....: کفار جب اپنے ان شریکوں کو دیکھیں گے جنھیں وہ مدد کے لیے پکارتے رہے اور اللہ کا شریک بناتے رہے، یا جن کے بتوں یا قبروں کو پوجتے اور سجدہ و طواف کرتے رہے، جیسا کہ صحیح بخاری (۴۲۸۸) میں ذکر ہے کہ مشرکین مکہ نے کعبہ کے اندر ابراہیم اور اسماعیل علیھما السلام کے بت بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ قیامت کے دن مشرکین ان بزرگوں کو دیکھیں گے تو اپنے جرم کو ہلکا کرنے اور اپنے بنائے ہوئے داتاؤں و دستگیروں کو اس جرم میں ساتھی بنانے کے لیے کہیں گے، پروردگارا! یہ لوگ ہیں جنھیں ہم تیرے سوا پکارا کرتے تھے۔ وہ سب کے سب فوراً سختی سے کہیں گے، بلاشک و شبہ یقیناً تم جھوٹے ہو۔ فوراً کا مفہوم ’’ فَاَلْقَوْا ‘‘ کی فاء سے ظاہر ہو رہا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مشرک انھیں پکارتے تو رہے ہیں، پھر وہ انھیں جھوٹا کیوں کہیں گے؟ جواب اس کا ایک تو یہ ہے کہ جو بھی اللہ کے سوا کسی کو پکارتا ہے اسے یعنی اس کے بنائے ہوئے داتا و دستگیر کو معلوم ہی نہیں کہ کوئی اسے پکار رہا ہے، نہ انھیں ان کا پکارنا سنائی دیتا ہے، تو وہ انھیں جھوٹا نہ کہیں تو کیا کہیں؟ دیکھیے سورۂ فاطر (۱۳، ۱۴) اور سورۂ احقاف (۵، ۶) دوسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کا شریک کہیں موجود ہی نہیں، ہر مشرک خواہ بت پرست ہو یا قبر پرست، ولی پرست ہو یا نبی پرست، وہ محض اپنے خیالی بنائے ہوئے حاجت رواؤں، مشکل کشاؤں کو پکارتا ہے، حقیقت میں ان کا کہیں کوئی وجود نہیں، اس لیے وہ انبیاء و اولیاء اور ان کے بنائے ہوئے داتا و دستگیر انھیں صاف جھوٹا کہیں گے کہ تم ہمیں نہیں بلکہ اپنے وہم و گمان اور خیال کو پکارتے اور پوجتے رہے ہو۔ دیکھیے سورۂ یونس (۶۶) اور سورۂ نجم(۲۳) رہا شیطان تو اس نے واقعی انھیں شرک کی دعوت دی تھی، مگر وہ نہایت بے حیائی کے ساتھ ان سے صاف بے تعلق ہو جائے گا۔ دیکھیے سورۂ ابراہیم (۲۲) ۔