سورة النحل - آیت 76

وَضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا أَبْكَمُ لَا يَقْدِرُ عَلَىٰ شَيْءٍ وَهُوَ كَلٌّ عَلَىٰ مَوْلَاهُ أَيْنَمَا يُوَجِّههُّ لَا يَأْتِ بِخَيْرٍ ۖ هَلْ يَسْتَوِي هُوَ وَمَن يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ ۙ وَهُوَ عَلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اللہ تعالیٰ ایک اور مثال بیان فرماتا ہے (١) دو شخصوں کی، جن میں سے ایک تو گونگا ہے اور کسی چیز پر اختیار نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے مالک پر بوجھ ہے کہیں بھی اسے بھیج دو کوئی بھلائی نہیں لاتا، کیا یہ اور وہ جو عدل کا حکم دیتا ہے (٢) اور ہے بھی سیدھی راہ پر، برابر ہو سکتے ہیں؟

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا رَّجُلَيْنِ....: ’’ اَبْكَمُ ‘‘ گونگا، اس کے ساتھ اس کا بہرا ہونا بھی لازم ہوتا ہے، کیونکہ آدمی سن کر ہی بولنا سیکھتا ہے۔ یہ مثال پہلی مثال سے بھی واضح ہے۔ دو آدمی ہیں، ایک میں چار خامیاں ہیں : (1) وہ ’’ اَبْكَمُ ‘‘ ہے کہ نہ سنتا ہے نہ بولتا ہے۔ (2) ’’ لَا يَقْدِرُ عَلٰى شَيْءٍ ‘‘ یعنی وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا، چلو بول نہیں سکتا تو کسی ہنر ہی کا مالک ہو، ہاتھ پاؤں ہلا کر یا سر پر بوجھ اٹھا کر ہی کچھ کما سکے، نہیں، کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ (3) وہ آزاد نہیں بلکہ غلام ہے اور غلام بھی ایسا بے کار کہ مالک ہی کو اس کا سارا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔ (4) مالک اسے جہاں بھی بھیجے اسے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بے چارہ راستہ ہی معلوم نہیں کر سکتا، نہ پوچھ سکتا ہے۔ اس کے مقابلے میں دوسرے شخص میں چار خامیوں کے بجائے دو خوبیاں ہیں : (1) وہ لوگوں کو عدل کا حکم دیتا ہے۔ معلوم ہوا وہ سنتا، بولتا اور سمجھتا ہے، وہ نہ ’’ اَبْكَمُ ‘‘ہے اور نہ ’’ لَا يَقْدِرُ عَلٰى شَيْءٍ ‘‘ہے۔ (2) ’’ وَ هُوَ عَلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ‘‘ یعنی وہ صحیح ترین راستے پر قائم ہے، جو سب سے مختصر اور منزل پر پہنچا دینے والا ہے، یعنی وہ نہ کسی پر بوجھ ہے، نہ راستے سے سراسر ناواقف۔ تو کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ ہر گز نہیں! اسی طرح بندوں کے خود ساختہ معبود بت ہوں یا قبریں یا کچھ اور، وہ نہ سنتے ہیں، نہ بولتے ہیں، نہ کچھ کر سکتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتے ہیں۔ اپنے مالک پر بوجھ ہیں، یعنی بجائے اس کے کہ یہ اپنے پجاریوں کے کسی کام آئیں خود ان کے پجاری مصیبت اٹھا کر پتھر، اینٹیں، سیمنٹ اور مستری لا کر انھیں بنواتے ہیں۔ پھر ان کی حفاظت اور مرمت کرتے، پہرا دیتے اور صفائی کرتے ہیں۔ یہ دونوں کیسے برابر ہو گئے؟ جب وہ دونوں آدمی برابر نہیں، حالانکہ مخلوق ہونے میں اور آدمی ہونے میں دونوں برابر ہیں، تو مشرکین کے بنائے ہوئے بت اور آستانے جو بے جان ہیں اور ان کے محتاج ہیں، اللہ تعالیٰ کے برابر کیسے ہو گئے اور اس کے شریک کس طرح بن گئے؟ 2۔ بعض اہل علم نے دونوں آیتوں میں مذکور دو، دو آدمیوں کو مومن و کافر کی مثال قرار دیا ہے۔ بری صفات والے غلام سے مراد کافر اور اچھی صفات والے سے مراد آزاد مومن ہے، مگر اوپر بیان کردہ تفسیر زیادہ صحیح ہے۔