وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
لڑو اللہ کی راہ میں جو تم سے لڑتے ہیں اور زیادتی نہ کرو (١) اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
1۔ مسلمان عمرہ کے لیے آئے تو کفار لڑائی پر آمادہ ہو گئے۔ حج کے بیان کے ساتھ لڑائی کے حکم کی مناسبت یہ ہے۔ 2۔بعض مفسرین نے فرمایا کہ اس آیت میں صرف ان کفار سے لڑنے کا حکم ہے جو خود لڑنے میں پہل کریں ، ”وَ لَا تَعْتَدُوْا“ (زیادتی نہ کرو) کا معنی انھوں نے یہ کیا کہ تم لڑائی میں پہل نہ کرو، پھر ان مفسرین نے اسے ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیا جن میں تمام کفار سے لڑنے کا حکم ہے، وہ پہل کریں یا نہ کریں ، مثلاً : ﴿وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَآفَّةً ﴾ [ التوبۃ : ۳۶ ] ’’اور مشرکوں سے ہر حال میں لڑو۔‘‘ اور فرمایا : ﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ يَلُوْنَكُمْ مِّنَ الْكُفَّارِ﴾ [ التوبۃ : ۱۲۳ ]’’ان لوگوں سے لڑو جو کافروں میں سے تمھارے قریب ہیں ۔‘‘ اور فرمایا : ﴿قَاتِلُوا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ لَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ [ التوبۃ : ۲۹ ] ’’لڑو ان لوگوں سے جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ یوم آخر پر۔‘‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ آیت نہ دوسری آیات کے خلاف ہے، نہ منسوخ ہے اور نہ ”لَا تَعْتَدُوْا“ کا معنی یہ ہے کہ لڑنے میں پہل نہ کرو، بلکہ اس میں مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے کہ جب وہ لڑنے سے دریغ نہیں کرتے تو تم بھی ان سے لڑو اور جن جن جگہوں سے انھوں نے تمھیں نکالا ہے تم بھی انھیں وہاں سے نکالو۔ (ابن کثیر) اور ”لَا تَعْتَدُوْا“ کا معنی ابن عباس رضی اللہ عنہما اور عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے یہ بیان فرمایا کہ بچوں اور عورتوں کو قتل نہ کرو، نہ بوڑھوں کو اور نہ اس کو جو صلح کی پیش کش کر تا ہے اور لڑنے سے ہاتھ روک لیتا ہے، اگر تم نے ایسا کیا تو زیادتی کرو گے۔ (ابن کثیر) بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم جب کسی شخص کو کسی لشکر کا امیر مقرر فرماتے تو اسے اور باقی مومنوں کو نصیحت فرماتے : ’’اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اللہ کے راستے میں جہاد کرو، جو اللہ کا منکر ہے اس سے لڑو۔ جنگ کرو، خیانت نہ کرو، نہ عہد شکنی کرو، نہ مثلہ کرو، نہ بچوں کو قتل کرو اور نہ درویشوں ، راہبوں کو۔‘‘ [ مسلم، الجہاد، باب تأمیر الإمام الأمراء علی البعوث.... : ۱۷۳۱ ] امام طبری نے فرمایا : ’’یہی معنی درست ہے، کیونکہ نسخ کا دعویٰ کرنے والوں کے پاس کوئی دلیل نہیں اور دلیل کے بغیر دعویٰ تو ہر شخص کر سکتا ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس پیشکش کے بعد کہ ’’ مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ دو یا لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ‘‘ اگر کوئی شخص نہیں لڑتا، بلکہ مسلمان ہو جاتا ہے، یا جزیہ دینے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو اس سے لڑنا زیادتی ہے اور اللہ تعالیٰ کوزیادتی کرنے والے پسند نہیں ۔