قَدْ مَكَرَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ فَأَتَى اللَّهُ بُنْيَانَهُم مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَيْهِمُ السَّقْفُ مِن فَوْقِهِمْ وَأَتَاهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
ان سے پہلے کے لوگوں نے بھی مکر کیا تھا، (آخر) اللہ نے (ان کے منصوبوں) کی عمارتوں کو جڑوں سے اکھیڑ دیا اور ان (کے سروں) پر (ان کی) چھتیں اوپر سے گر پڑیں (١) اور ان کے پاس عذاب وہاں سے آگیا جہاں کا انھیں وہم و گمان بھی نہ تھا (٢)
1۔ قَدْ مَكَرَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: مکر کا معنی خفیہ اور مضبوط تدبیر یا کسی دوسرے کو حیلے کے ساتھ اس کے مقصد سے روکنا ہے، یہ خیر کے لیے ہو تو قابل تعریف ہے، شر کے لیے ہو تو قابل مذمت۔ اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان کو تسلی دی گئی ہے کہ اس سے پہلے لوگوں نے بھی رسولوں کے خلاف خفیہ تدبیریں اور سازشیں جتنی کر سکتے تھے کیں مگر بری طرح ناکام ہوئے۔ 2۔ فَاَتَى اللّٰهُ بُنْيَانَهُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ....: ’’ بُنْيَانٌ بَنَي يَبْنِيْ ‘‘ (ض) کا مصدر بمعنی اسم مفعول ہے، بنائی ہوئی عمارت۔ ’’ الْقَوَاعِدِ ‘‘ ’’ قَاعِدَةٌ ‘‘ کی جمع ہے، بنیادیں۔ اس کی تفسیر دو طرح سے کرتے ہیں، ایک تو یہ کہ یہ ایک تمثیل ہے، یعنی ایک معنوی چیز کو نظر آنے والی چیز کے ساتھ تشبیہ دے کر بات سمجھائی گئی ہے، یعنی جس طرح کوئی شخص ایک عمارت بنائے تو دوسرا کوئی شخص خفیہ طریقے سے اس کی بنیادوں کو اس طرح کھوکھلا کر دے کہ عمارت کی چھت گر پڑے اور بنانے والے اپنے ہی مکان کی چھت کے نیچے آ کر ہلاک ہو جائیں۔ اسی طرح کفار نے رسولوں اور اہل ایمان کے خلاف مکر (سازش) کے محل تعمیر کیے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے ان محلوں کی بنیادیں اس طرح ہلا دیں کہ ان کی چھتیں بھی انھی پر گر پڑیں۔ جس طرح کہتے ہیں کہ جو دوسرے کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود ہی اس میں گر پڑتا ہے۔ یہاں واقعی کنواں ہونا ضروری نہیں۔ کئی مفسرین نے یہ معنی کیا ہے اور رازی نے اسے ترجیح دی ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ رسولوں کے خلاف سازشیں کرنے والے جن عمارتوں میں رہتے تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی بنیادوں کو زلزلے کا ایسا جھٹکا دیا، یا سیلاب میں ایسا گھیرا کہ ان کی چھتیں ان کے اوپر گر پڑیں اور وہ ان کے نیچے آ کر ہلاک ہو گئے، اس طرح اللہ کے عذاب نے انھیں ایسی جگہ سے آ گھیرا جہاں سے وہ گمان بھی نہ رکھتے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَكُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْۢبِهٖ فَمِنْهُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِ حَاصِبًا وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَخَذَتْهُ الصَّيْحَةُ وَ مِنْهُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِهِ الْاَرْضَ وَ مِنْهُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا ﴾ [ العنکبوت : ۴۰ ] ’’تو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں پکڑ لیا پھر ان میں سے کوئی وہ تھا جس پر ہم نے پتھراؤ والی ہوا بھیجی اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے چیخ نے پکڑ لیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے کوئی وہ تھا جسے ہم نے غرق کر دیا۔‘‘ امام المفسرین طبری رحمہ اللہ نے اس معنی کو ترجیح دی ہے اور فرمایا کہ جب الفاظ کے ظاہر معنی مراد لیے جا سکتے ہیں اور اس میں کوئی خرابی نہیں، تو تمثیل کی طرف جانے کی کیا ضرورت ہے، چنانچہ اس میں کیا چیز ناممکن ہے کہ کئی کفار اپنے مکانوں کی چھتوں کے نیچے آ کر مر گئے ہوں، جنھیں وہ نہایت مضبوط سمجھتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے رمضان ۱۴۲۶ھ میں کشمیر کے ہولناک زلزلے میں بے شمار کئی منزلہ مکان زمین میں دھنس گئے، بہت سے اپنے مکینوں پر گر پڑے اور اس کے بعد رمضان ۱۴۳۱ ھ میں پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے شہروں کے شہر بری طرح متاثر ہوئے، حتیٰ کہ تقریباً نصف پاکستان سیلاب کی زد میں آگیا، یہ سب کچھ ہمارے سامنے ہے۔ [ اَللّٰھُمَّ لَا تَقْتُلْنَا بِغَضَبِکَ وَلَا تُھْلِکْنَا بِعَذَابِکَ وَ عَافِنَا قَبْلَ ذٰلِکَ ]