أَفَمَن يَخْلُقُ كَمَن لَّا يَخْلُقُ ۗ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ
تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اس جیسا ہے جو پیدا نہیں کرسکتا ؟ کیا تم بالکل نہیں سوچتے (١)۔
اَفَمَنْ يَّخْلُقُ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ....: یہ سب نعمتیں جو ذکر ہوئیں، سب جانتے اور مانتے ہیں کہ ایک اللہ کی پیدا کردہ ہیں اور جنھیں مشرکین پکارتے ہیں انھوں نے نہ کچھ پیدا کیا ہے، نہ کر سکتے ہیں، حتیٰ کہ اس کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے (دیکھیے سورۂ حج : ۷۳) تو یہ بتاؤ کہ ہر چیز کے خالق کو تم نے ان بے بس ہستیوں کے برابر کر دیا جو مکھی کا پر بھی نہیں بنا سکتیں، تو کیا یہ بات تمھاری سمجھ میں نہیں آتی۔ سچ ہے : ﴿ وَ مَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهٖ ﴾ [ الأنعام : ۹۱ ] ’’انھوں نے اللہ کی قدر ہی نہیں کی جو اس کی قدر کا حق تھا۔‘‘ یہ مضمون مفصل سورۂ رعد ( ۱۶) میں ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ زمخشری نے یہاں سوال اٹھایا ہے کہ ’’مَنْ‘‘ کا لفظ تو ذوی العقول کے لیے ہوتا ہے، یہاں بتوں کے لیے کیوں استعمال ہوا، پھر جواب دیا ہے کہ چونکہ مشرکین انھیں حاجت روا، مشکل کشا سمجھتے تھے، اس لیے ان کے عقیدے کے مطابق ’’ كَمَنْ لَّا يَخْلُقُ ‘‘ فرمایا ہے۔ حالانکہ اس کا سادہ اور صحیح جواب یہ ہے کہ وہ محض پتھروں کو نہیں پوجتے تھے، بلکہ ان ہستیوں کو پکارتے تھے جن کے وہ بت بناتے تھے، مثلاً انھوں نے مریم، ابراہیم اور اسماعیل علیھم السلام کے مجسّمے بیت اللہ کے اندر رکھے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھوں میں فال کے تیر پکڑائے ہوئے تھے۔ [ دیکھیے بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قول اللّٰہ تعالٰی : ﴿و اتخذ اللّٰہ إبراہیم خلیلا ﴾ : ۳۳۵۱، ۳۳۵۲ ] قوم نوح کے بت بھی اولیاء اللہ ہی کے مجسمے تھے۔ دیکھیے تفسیر سورۂ نوح( ۲۳) یہ سب ذوی العقول تھے، بلکہ ذوی العقول کے استاد تھے، اس لیے زمخشری نے جو سوال اٹھایا ہے وہ پیدا ہی نہیں ہوتا۔