قَالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنكَرُونَ
تو انہوں (لوط علیہ السلام) نے کہا تم لوگ تو کچھ انجان سے معلوم ہو رہے ہو (١)۔
قَالَ اِنَّكُمْ قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ : جن کی جان پہچان نہ ہو، اجنبی، اُوپرے۔ ابراہیم علیہ السلام کی طرح لوط علیہ السلام بھی انھیں پہچان نہ سکے۔ اس سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ دوسری ساری مخلوق کی طرح یہ دونوں جلیل القدر انبیاء بھی عالم الغیب نہ تھے، ورنہ وہ ان کے آنے سے پہلے ہی انھیں جانتے ہوتے اور ان کے آنے سے باخبر ہوتے، بلکہ ابراہیم علیہ السلام کو پہلے ہی معلوم ہوتا کہ مجھے اتنی عمر میں اسحاق عطا ہوں گے اور لوط علیہ السلام کو پہلے ہی اپنی قوم کا انجام معلوم ہوتا، مگر اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ابراہیم علیہ السلام کا اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے پر صبر، آگ میں ڈالے جانے پر بھی استقامت کا اظہار، جبار مصر کی زیادتی کی آزمائش پر صبر، ہاجر اور اسماعیل کو وادی غیر ذی زرع میں چھوڑنے پر صبر، غرض ان کی کوئی آزمائش، آزمائش نہیں رہے گی، کیونکہ اگر پہلے علم ہو کہ ہمارا کچھ نہیں بگڑے گا تو ہر شخص آگ میں کود سکتا ہے اور بیٹے کی گردن پر چھری چلانے کے لیے تیار ہو سکتا ہے۔ شیعہ حضرات نے تو انبیاء کے علاوہ اپنے بارہ اماموں کو ہر گزری ہوئی اور آنے والی بات جاننے والا قرار دیا۔ دیکھیے ان کی کتاب ’’الکافی‘‘ کی فہرست، جسے وہ اتنا معتبر سمجھتے ہیں جتنا اہل سنت صحیح بخاری کو۔