نَبِّئْ عِبَادِي أَنِّي أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت ہی بخشنے والا اور بڑا مہربان ہوں۔
1۔ نَبِّئْ عِبَادِيْ اَنِّيْ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ....: ’’نَبَأٌ‘‘ خاص اور اہمیت والی خبر کو کہتے ہیں۔ ’’ نَبِّئْ ‘‘ باب تفعیل سے امر ہے، یعنی یہ بات اچھی طرح بتا دو، تاکہ وہ امید بھی رکھیں اور خوف بھی، کیونکہ ایمان ان دونوں کے درمیان ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللّٰهِ مِنَ الْعُقُوْبَةِ، مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللّٰهِ مِنَ الرَّحْمَةِ، مَا قَنِطَ مِنْ جَنَّتِهِ أَحَدٌ )) [ مسلم، التوبۃ، باب في سعۃ رحمۃ اللّٰہ تعالٰی.....: ۲۷۵۵ ] ’’اگر مومن جان لے کہ اللہ کے پاس کتنی عقوبت ہے تو کوئی اس کی جنت کا طمع نہ رکھے اور اگر کافر جان لے کہ اللہ کے پاس کس قدر رحمت ہے تو کوئی اس کی جنت سے ناامید نہ ہو۔‘‘ ان آیات میں رحمت و مغفرت کا بیان پہلے اور عذاب الیم کا ذکر بعد میں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی اصل اور غالب صفت رحمت ہے، عذاب تو محض عدل کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف کی آیت (۱۵۶) کی تفسیر۔ یہاں رحمت کے اظہار کے لیے پہلے ’’ عِبَادِيْ ‘‘ سے خطاب، پھر ’’أَنَّ‘‘، ’’ اَنَا ‘‘ ضمیر فصل اور ’’ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ ‘‘ کو الف لام کے ساتھ لا کر تاکید پر تاکید فرمائی، دوسری آیت میں ’’ هُوَ ‘‘ ضمیر فصل اور ’’ الْعَذَابُ ‘‘ کو معرف باللام لا کر تاکید فرمائی۔ پہلی آیت میں فرمایا کہ میری صفات رحمت یہ ہیں اور ان کا مالک میرے سوا کوئی نہیں، دوسری آیت میں فرمایا اور میرے عذاب کی صفت یہ ہے، یہ نہیں فرمایا : ’’ وَإِنِّيْ أَنَا الْمُعَذِّبُ..... ‘‘ کہ میں ہی ایسا عذاب دینے والا ہوں، بلکہ اپنے عذاب کی صفت بیان فرمائی کہ میرا عذاب ہی ایسا ہے جو عذاب الیم ہے۔ 2۔ یہ آیات تمہید ہیں ان واقعات کی جو آگے آ رہے ہیں، جن میں فرشتوں کی ایک جماعت کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا ظہور ہوا اور انھی کے ذریعے سے اس کے عذاب الیم کا ظہور ہوا۔