لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ
ساری اچھائی مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرنے میں ہی نہیں (١) بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تب اسے پورا کرے، تنگ دستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے، یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔
1۔ مسلمانوں کو جب پہلے بیت المقدس اور پھر کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا گیا تو یہ بعض اہل کتاب اور بعض مسلمانوں پر شاق گزرا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس کی حکمت بیان فرمائی کہ اصل مقصد اللہ تعالیٰ کی اطاعت، اس کے احکام کی فرماں برداری، جدھر وہ کہے ادھر رخ کرنا اور جو حکم وہ دے اس پر عمل کرنا ہے۔ یہ ہے اصل نیکی، تقویٰ اور کامل ایمان۔ رہا مشرق یا مغرب میں سے کسی طرف رخ کرنے کی پابندی، تو اس میں کوئی نیکی نہیں ، اگر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی وجہ سے نہ ہو۔ (ابن کثیر) 2۔وَ لٰكِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ : اس میں ”مَنْ“ سے پہلے ”بِرُّ“ محذوف ہے، یعنی اصل نیکی اس شخص کی نیکی ہے۔ 3۔ یہ آیت نیکی کی تمام اقسام پر مشتمل ہے اور اس میں تمام بنیادی عقائد، اعمال اور اخلاق آ گئے ہیں ۔ امام بخاری رحمة اللہ علیہ نے اس آیت کو [کِتَابُ الْاِیْمَانِ] کے تحت [بَابُ اُمُوْرِ الْإِیْمَانِ] (قبل ح : ۹)‘‘ میں ذکر فرمایا ہے کہ ایمان صرف عقائد کا نام نہیں ، بلکہ اعمال بھی ایمان کا جز ہیں ۔ 4۔ پہلے مال کی محبت کے باوجود اسے ذوی القربیٰ اور دوسرے مستحقین کو دینے کا ذکر فرمایا، بعد میں نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے کا ذکر فرمایا۔ اس سے معلوم ہو اکہ مسلمان کے مال میں صرف زکوٰۃ ہی واجب نہیں کہ زکوٰۃ دینے کے بعد سارا سال بندہ فارغ ہو گیا، بلکہ ضرورت کے وقت مستحقین پر مال خرچ کرنا بھی واجب ہے، مثلاً ماں باپ اور دوسرے ضرورت مند رشتہ داروں کا نفقہ، مہمان پر خرچ، ضرورت مند ہمسائے، مجاہدین اور آیت میں مذکور دوسرے حضرات پر خرچ کرنا۔ ان کا ذکر زکوٰۃ سے پہلے اس لیے کیا کہ عام طور پر اس سے غفلت برتی جاتی ہے۔ 5۔ یتیم وہ ہے جس کا والد فوت ہو جائے اور وہ ابھی بالغ نہ ہوا ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ((لاَ یُتْمَ بَعْدَ احْتِلاَمٍ))[أبوداؤد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ۲۸۷۳، عن علی رضی اللّٰہ عنہ] ’’بلوغت کے بعد یتیمی نہیں ۔‘‘ باقی مستحقین کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۶۰) 6۔ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَهْدِهِمْ.... : یہ اور اس سے پہلے مذکور نیکی کرنے والوں سے متعلق سب صیغے ترکیب کی رو سے مرفوع ہیں ، جب کہ ’’ الصّٰبِرِيْنَ ‘‘ کی حالت نصبی ہے، اس کی حکمت مفسرین نے یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ مدح اور اختصاص کی بنا پر منصوب ہے، یعنی یہ ”اَمْدَحُ“ یا ”اَخُصُّ“ کا مفعول ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’اور خصوصاً جو تنگی میں ۔‘‘ ”الْبَاْسَآءِ“سے مراد فقر، بھوک، تنگ دستی، ”الضَّرَّآءِ“سے مراد تکلیف، خصوصاً بیماری اور ”اَلْبَأْسِ“ سے مراد جنگ ہے۔ ان تینوں حالتوں میں صبر نہایت مشکل ہوتا ہے، اس لیے ان کا خاص طور پر ذکر فرمایا گیا ہے۔