سورة الحجر - آیت 21

وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا عِندَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزِّلُهُ إِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جتنی بھی چیزیں ہیں ان سب کے خزانے ہمارے پاس ہیں (١) اور ہم ہر چیز کو اس کے مقررہ انداز سے اتارتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِنْ مِّنْ شَيْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا....: یعنی کوئی بھی چیز، قیمتی سے قیمتی ہو یا معمولی سے معمولی، ہمارے پاس اس کے کئی خزانے ہیں، مگر ہم اس کو معلوم اندازے کے مطابق ہی ظاہر کرتے ہیں، مثلاً جلانے اور روشنی کے لیے لکڑی استعمال ہوتی تھی، جب آبادی زیادہ ہوئی تو کوئلہ نکل آیا، مزید بڑھی تو پٹرولیم عطا ہوا ،اس سے بھی بڑھی تو گیس نکل آئی، بجلی کے اوون ایجاد ہو گئے۔ توانائی اور سواری کے لیے جانور استعمال ہوتے تھے، پھر پہیہ ایجاد ہوا، پھر کوئلہ استعمال ہونے لگا، پھر پٹرولیم، گیس، بجلی اور ایٹم، الغرض! ایجادات بھی ضرورت کے مطابق اپنے اپنے وقت پر ہوئیں۔ اس سے ان ملحد لوگوں، خصوصاً حکمرانوں کی بات کا غلط ہونا صاف واضح ہوتا ہے جو کہتے ہیں کہ آبادی زیادہ بڑھ رہی ہے ، جب کہ ہمارے پاس وسائل کم ہیں ،ہم سب کی خوراک کا بندوبست نہیں کر سکتے، اس لیے آبادی کم کرو، ضبط ولادت کرو، ایک یا دو بچے پیدا ہونے دو۔ یہ لوگ درحقیقت اللہ پر ایمان نہیں رکھتے، جس نے فرمایا کہ ہمارے پاس ہر چیز کے بے شمار خزانے ہیں، مگر ہم مقرر اندازے کے ساتھ ہی اسے نازل کرتے ہیں۔ ان حکمرانوں نے کسی کو خوراک کیا دینی ہے، یہ تو خود عوام کی کمائی پر پلتے ہیں۔ اللہ کا کرم دیکھو، جو زمین پہلے دس من غلہ پیدا کرتی تھی اب سو من نکالتی ہے، بجلی اور دوسری ایجادات سے جو آسائشیں آج عام آدمی کو میسر ہیں وہ چند سو سال پہلے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی میسر نہ تھیں، بلکہ ان کے خیال میں بھی نہ تھیں، الا یہ کہ وہ سلیمان علیہ السلام جیسا ہو، پیدل سفر اور اونٹوں، گھوڑوں کی جگہ گاڑیاں اور جہاز اور لق و دق صحراؤں کی جگہ آبادیاں اور نہایت صاف اور کشادہ سڑکیں اور ریلویز۔ اُون اور کپاس کی جگہ پٹرولیم کے کپڑے۔ الغرض! کس کس نئی نعمت اور خزانے کا ذکر کیا جائے۔ رہا آبادی اور وسائل کا تناسب، تو وہ اللہ تعالیٰ سے بہتر کون جانتا ہے، اگر آبادی کم کرنے کی ضرورت ہو تووہ اپنی غیبی تدبیر سے خود ہی کم کر لیتا ہے، کبھی طوفانوں سے، کبھی جنگوں سے، کبھی زلزلوں سے، کبھی وباؤں کے ذریعے سے۔ الغرض ہر جان دار کا رزق اللہ کے ذمے ہے اور ہر شخص کو اللہ تعالیٰ دنیا میں ایک منہ کھانے کے لیے اور دو ہاتھ کمانے کے لیے دے کر بھیجتا ہے اور ایک ایک شخص کئی کئی افراد کی ضروریات مہیا کرتا ہے۔ دراصل یہ حکمران اس بہانے سے بدکاری اور بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں اور بے حیائی پھیلانے کے خواہش مند لوگوں کی سزا اللہ تعالیٰ نے سورۂ نور (۱۹) میں بیان کی ہوئی ہے۔ ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی حکم ہے کہ آبادی میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کرو، دنیامیں غلبے کا یہ ایک مضبوط ذریعہ بھی ہے اور قیامت کے دن ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے دوسرے انبیاء سے اپنی امت کے زیادہ ہونے کی خوشی اور فخر کا باعث بھی، جیسا کہ معقل بن یسار رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے : (( تَزَوَّجُوا الْوَدُوْدَ الْوَلُوْدَ فَإِنِّيْ مُكَاثِرٌ بِكُمُ الْأُمَمَ )) [ أبوداؤد، النکاح، باب النھي عن تزویج من لم یلد من النسآء : ۲۰۵۰۔ نسائی :۳۲۲۹، و صححہ الألباني ] ’’ایسی عورت سے نکاح کرو جو (خاوند سے) بہت محبت کرنے والی ہو اور بہت بچے جننے والی ہو، کیونکہ میں دوسری امتوں کے مقابلے میں تمھاری کثرت پر فخر کرنے والا ہوں گا۔‘‘