سورة البقرة - آیت 174

إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ الْكِتَابِ وَيَشْتَرُونَ بِهِ ثَمَنًا قَلِيلًا ۙ أُولَٰئِكَ مَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ إِلَّا النَّارَ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بیشک جو لوگ اللہ تعالیٰ کی اتاری ہوئی کتاب چھپاتے ہیں اور اسے تھوڑی تھوڑی سی قیمت پر بیچتے ہیں، یقین مانو کہ یہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان سے بات بھی نہ کرے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

1۔ یہ آیات گو علمائے یہود کے حق میں نازل ہوئی ہیں ، جو دنیا کے جاہ و مال کے حصول کی خاطر تورات میں مذکور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اوصاف کو چھپا رہے تھے (دیکھیے بقرہ : ۱۵۹) مگر اس میں ہر وہ شخص شامل ہے جو دنیا کے مفاد کی خاطر دین کو فروخت کرے۔ ثَمَنًا قَلِيْلاً: اس کا معنی یہ نہیں کہ زیادہ قیمت لے سکتے ہیں ، بلکہ ساری دنیا بھی مل جائے تو وہ آخرت کے مقابلے میں قلیل ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ ﴾ [ النساء : ۷۷] ’’کہہ دے دنیا کا سامان بہت تھوڑا ہے۔‘‘ فَمَا اَصْبَرَهُمْ عَلَي النَّارِ:”مَا“بمعنی ”اَيُّ شَيْءٍ“اسم تعجب مبتدا،”اَصْبَرَهُمْ“ فعل ماضی مع فاعل، ’’ هُمْ ‘‘ مفعول بہ، جملہ ”مَا“ مبتدا کی خبر۔ وَ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللّٰهُ : یعنی اللہ محبت و رحمت کے ساتھ ان سے بات نہیں کرے گا، ورنہ ناراضی اور ڈانٹ کے طور پر تو اللہ تعالیٰ ان سے خطاب فرمائے گا۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۱۰۸) ذٰلِكَ: اس میں یہود و نصاریٰ کا حق چھپانا، اس کے بدلے ثمنِ قلیل یعنی تھوڑی قیمت لینا، اس پر آگ کا عذاب، اللہ تعالیٰ کا ان سے کلام نہ کرنا، انھیں پاک نہ کرنا اور آگ پر یہود کی جرأت و صبر تمام چیزیں شامل ہیں ۔ ﴿بِاَنَّ اللّٰہَ نَزَّلَ الْکِتٰبَ﴾ اس میں اور ﴿الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْ الْکِتٰبِ﴾ دونوں جگہ ”الْكِتٰبِ“ سے تورات اور قرآن دونوں مراد ہو سکتے ہیں ، اگر تورات مراد ہو تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو تورات حق کے ساتھ نازل کی تھی، مگر جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا، یعنی اس میں تحریف کی یا اس کے بعض کو مانا اور بعض کو نہ مانا وہ حق سے بہت دور کی مخالفت میں جا پڑے۔ اگر قرآن مراد ہو تو مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب (یعنی قرآن) حق کے ساتھ نازل کی، مگر جن لوگوں نے اس کے بارے میں اختلاف کیا، کسی نے کہا یہ وہ نہیں جس کی تورات میں پیشین گوئی ہے، کسی نے کہا یہ صرف اُمّی (یعنی ان پڑھ عرب) لوگوں کے لیے ہے، جیسا کہ ابن صیاد نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا تھا۔ [بخاری، الجنائز، باب إذا أسلم الصبی .... : ۱۳۵۴ ] تو یہ سب لوگ بہت دور کی مخالفت میں پڑے ہوئے ہیں ، ان کا قرآن کو نہ ماننا صرف اس مخالفت کی وجہ سے ہے۔