ذَرْهُمْ يَأْكُلُوا وَيَتَمَتَّعُوا وَيُلْهِهِمُ الْأَمَلُ ۖ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ
آپ انھیں کھاتا، نفع اٹھاتا اور (جھوٹی) امیدوں میں مشغول ہوتا چھوڑ دیجئیے یہ خود بھی جان لیں گے (١)۔
1۔ ذَرْهُمْ يَاْكُلُوْا وَ يَتَمَتَّعُوْا: ’’ ذَرْ ‘‘ مثال واوی سے فعل امر ہے، اس کا صرف امر اور مضارع استعمال ہوتا ہے، اس کے باقی صیغوں کی جگہ ’’تَرَكَ‘‘ کے مشتقات استعمال ہوتے ہیں۔ ’’ يَتَمَتَّعُوْا ‘‘ ’’ لَهْوٌ ‘‘ سے باب افعال کا مضارع ’’ يُلْهِيْ ‘‘ ہے جو ’’ ذَرْ ‘‘ کا جواب ہونے کی و جہ سے یا لام امر مقدر ہونے کی و جہ سے مجزوم ہے، اس کی ’’یاء‘‘ اور ’’ يَاْكُلُوْا ‘‘ اور ’’ يَتَمَتَّعُوْا ‘‘ کا نون بھی اسی و جہ سے گر گئے ہیں۔ یہ سارے امر انھیں ڈانٹنے کے لیے ہیں، یہ نہیں کہ انھیں اجازت دی جا رہی ہے۔ اس معنی کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ مرسلات ( ۴۶)، سورۂ زخرف ( ۸۳) اور سورۂ طور (۴۵) وغیرہ۔’’ يَاْكُلُوْا وَ يَتَمَتَّعُوْا ‘‘ سے معلوم ہوا کہ کفار کی زندگی کا مقصد ہی بس یہ ہے۔ ’’ الْاَمَلُ ‘‘ امید، کسی چیز کے حصول کی آرزو، عموماً جس کا حصول بعید ہو۔ 2۔ وَ يُلْهِهِمُ الْاَمَلُ: ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَرَزَ بَيْنَ يَدَيْهِ غَرَزًا ثُمَّ غَرَزَ إِلٰی جَنْبِهِ آخَرَ ثُمَّ غَرَزَ الثَّالِثَ فَأَبْعَدَهُ، ثُمَّ قَالَ هَلْ تَدْرُوْنَ مَا هٰذَا؟ قَالُوْا اَللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ أَعْلَمُ ، قَالَ هٰذَا الْإِنْسَانُ وَهٰذَا أَجَلُهُ وَهٰذَا أَمَلُهُ يَتَعَاطَى الْأَمَلَ يَخْتَلِجُهُ دُوْنَ ذٰلِكَ )) [ مسند أحمد : 3؍18، ح : ۱۱۱۳۸، إسنادہ جید ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آگے ایک لکڑی گاڑی، پھر ایک اس کے پہلو میں گاڑی، پھر تیسری اس سے دور گاڑی، پھر فرمایا : ’’کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟‘‘ لوگوں نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔‘‘ فرمایا : ’’یہ انسان ہے اور یہ اس کی اجل (موت) ہے اور وہ اس کی آرزو ہے۔ وہ آرزو حاصل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے اور اس کے حصول سے پہلے اس کے راستے میں اجل رکاوٹ بن جاتی ہے۔‘‘ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں : (( صَلاَحُ أَوَّلِ هٰذِهِ الْأُمَّةِ بِالزُّهْدِ وَالْيَقِيْنِ وَيَهْلِكُ آخِرُهَا بِالْبُخْلِ وَالْأَمَلِ )) [ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :7؍1263،ح : ۳۴۲۷ ]’’اس امت کے اول کی درستگی زہد اور یقین کے ساتھ ہے اور اس کا آخری حصہ بخل اور امل(امید) کے ساتھ ہلاک ہو گا۔‘‘