وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِندَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِن كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ
یہ اپنی اپنی چالیں چل رہے ہیں اور اللہ کو ان کی تمام چالوں کا علم ہے (١) اور ان کی چالیں ایسی نہ تھیں کہ ان سے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائیں (٢)۔
1۔ وَ قَدْ مَكَرُوْا مَكْرَهُمْ.....: یعنی ان پہلے کفار اور موجودہ کفار نے اپنے انبیاء اور اہل ایمان کے خلاف اپنی زیادہ سے زیادہ اور خطرناک سے خطرناک جو بھی خفیہ تدبیر اور سازش وہ کر سکتے تھے کی۔ ’’ مَكْرَهُمْ ‘‘ سے یہی مراد ہے اور اللہ کو ان کی ہر سازش کا علم تھا۔ اس آیت کے تحت تفسیروں میں نمرود کا قصہ بھی ذکر کر دیا گیا ہے جو صحت کے ساتھ ثابت نہیں۔ (رازی) 2۔ وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُوْلَ مِنْهُ الْجِبَالُ: یہ ’’ اِنْ ‘‘ نافیہ (یعنی نہیں کے معنی میں) ہے، اس کے بعد لام پر کسرہ ہے، اسے لام جحد کہتے ہیں جو نفی کی تاکید کے لیے آتا ہے اور اس کے بعد فعل مضارع ’’أَنْ‘‘ کے ساتھ منصوب ہوتا ہے جو لام جحد کے بعد وجوباً محذوف ہوتا ہے۔ عام قراء ت یہی ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ ’’ان کی تدبیر ہر گز ایسی نہ تھی کہ اس سے پہاڑ ٹل جائیں‘‘ یعنی اللہ کا دین جو پہاڑوں کی طرح مستحکم ہے ان کی سازشیں کسی صورت اسے نقصان نہ پہنچا سکتی تھیں۔ کسائی کی قراء ت اس سے مختلف ہے، وہ ’’ لِتَزُوْلَ ‘‘ کو لام کے فتح کے ساتھ اور ’’ تَزُوْلُ‘‘ کو مرفوع پڑھتے ہیں۔ اس صورت میں ’’وَ اِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ ‘‘ میں ’’ اِنْ ‘‘ ’’إِنَّهُ‘‘ کا (یعنی حرف مشبہ بالفعل ’’إِنَّ‘‘ اور اس کے اسم ضمیر شان ’’هٗ ‘‘ کا قائم مقام) مخفف ہے اور ’’لَتَزُوْلُ‘‘ میں لامِ ابتدا تاکید کے لیے ہے۔ معنی یہ ہو گا کہ یقیناً ان کی تدبیر اور سازش ایسی خطرناک اور شدید خوف ناک تھی کہ پہاڑ بھی (اگر کسی طرح اپنی جگہ سے ٹل سکتے تو) ان سازشوں سے ضرور ہی ٹل جاتے۔ یاد رہے کہ یہ ترجمہ ’’لَتَزُوْلُ‘‘ یعنی لامِ ابتدا مفتوح اور آخری لام مرفوع پڑھنے کی صورت میں ہو گا، پہلی قراء ت (یعنی پہلا لام مکسور اور آخری منصوب) کا یہ ترجمہ اگر کوئی کرلے تو وہ درست نہیں ہو گا۔ معنوی طور پر دوسری قراء ت بھی بہت عمدہ ہے اور پہلی بھی۔