وَإِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِقَوْمِهِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ أَنجَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوءَ الْعَذَابِ وَيُذَبِّحُونَ أَبْنَاءَكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءَكُمْ ۚ وَفِي ذَٰلِكُم بَلَاءٌ مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ
جس وقت موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کے وہ احسانات یاد کرو جو اس نے تم پر کئے ہیں، جبکہ اس نے تمہیں فرعونیوں سے نجات دی جو تمہیں بڑے دکھ پہنچاتے تھے، تمہارے لڑکوں کو قتل کرتے تھے اور تمہاری لڑکیوں کو زندہ چھوڑتے تھے، اس میں تمہارے رب کی طرف سے تم پر بہت بڑی آزمائش تھی (١)
1۔ وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهِ اذْكُرُوْا.....: یہاں موسیٰ علیہ السلام چند نعمتیں گنوا رہے ہیں۔ ’’ يَسُوْمُوْنَكُمْ ‘‘ کے بعد ’’وَ يُذَبِّحُوْنَ اَبْنَآءَكُمْ وَ يَسْتَحْيُوْنَ نِسَآءَكُمْ ‘‘ میں واؤ عطف سے معلوم ہوا کہ وہ لڑکوں کو ذبح کرنے اور عورتوں کو زندہ رکھنے کے علاوہ اور بھی کئی بدترین عذاب دیتے تھے، مثلاً بیگار لینا، ذلیل کرنا اور مار پیٹ وغیرہ۔ 2۔ وَ فِيْ ذٰلِكُمْ بَلَآءٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَظِيْمٌ : ’’ بَلَآءٌ ‘‘ کا لفظ مصیبت پر بھی آتا ہے اور نعمت پر بھی، فرمایا : ﴿ وَ نَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَيْرِ فِتْنَةً ﴾ [ الأنبیاء : ۳۵ ] ’’اور ہم تمھیں برائی اور بھلائی میں مبتلا کرتے ہیں، آزمانے کے لیے۔‘‘ آل فرعون کے عذاب بلائے مصیبت تھے اور ان سے نجات بلائے نعمت تھی، عذاب بھی آزمائش اور اس سے رہائی کا انعام بھی آزمائش۔ ’’ ذٰلِكُمْ ‘‘ سے اشارہ ’’ سُوْٓءَ الْعَذَابِ ‘‘ کی طرف ہو تو مصیبت کے ساتھ آزمائش مراد ہے اور ’’ اِذْ اَنْجٰىكُمْ ‘‘ یعنی نجات کی طرف ہو تو نعمت کے ساتھ آزمائش مراد ہو گی اور قرآن کا اعجاز ہے کہ آیت کے ایک لفظ میں دونوں چیزیں آگئی ہیں۔