وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا ۚ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَمَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ
اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان اتارا ہے۔ (١) اگر آپ نے ان کی خواہشوں (٢) کی پیروی کرلی اس کے بعد کہ آپ کے پاس علم آچکا ہے (٣) تو اللہ (کے عذابوں) سے آپ کو کوئی حمایتی ملے گا اور نہ بچانے والا (٤)۔
1۔ وَ كَذٰلِكَ اَنْزَلْنٰهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا : یعنی جس طرح پہلے انبیاء کی طرف کتابیں اتریں اسی طرح ہم نے آپ پر یہ قرآن اتارا اور جس طرح ہر نبی پر اس کی قوم کی زبان میں وحی اور کتاب نازل کی اسی طرح عربوں پر بھی انھی کی زبان میں کتاب اتاری، کسی دوسری زبان میں نہیں، تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم تو یہ زبان جانتے ہی نہیں۔ ’’ اَنْزَلْنٰهُ ‘‘ (ہم نے اسے اتارا) سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید اور وحی الٰہی اوپر کی جانب سے آئی ہیں۔ اس سے ان لوگوں کا صاف رد ہو گیا جو اللہ تعالیٰ کے لیے اوپر کی جانب ہونے یا عرش پر ہونے کو تسلیم نہیں کرتے، بلکہ کبھی کہتے ہیں کہ وہ لامکان ہے، یعنی کہیں بھی نہیں اور کبھی کہتے ہیں وہ ہر جگہ ہے، حالانکہ قرآن نے کئی جگہ صراحت فرما دی ہے کہ وہ اوپر کی جانب ہے اور عرش پر ہے، فرمایا: ﴿قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ ﴾ [البقرۃ : ۱۴۴ ] ’’یقیناً ہم تیرے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف پھرنا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَى الْعَرْشِ ﴾ [ الأعراف : ۵۴ ] ’’پھر وہ عرش پر بلند ہوا۔‘‘ اور دیگر متعدد آیات۔ پھر آپ کے مخاطب اگرچہ قیامت تک کے تمام جن و انس ہیں، تاہم سب سے اول مخاطب عرب تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پوری دنیا کی رہنمائی کے لیے ان کا اور ان کی زبان کا انتخاب ان کی فطری خوبیوں اور ان کی زبان کی جامعیت، فصاحت و بلاغت، حسنِ ادا، آسان ہونے اور دوسری خوبیوں کی وجہ سے فرمایا اور اسے اہل عرب پر احسان قرار دیا : ﴿ وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ وَ سَوْفَ تُسْـَٔلُوْنَ ﴾ [الزخرف : ۴۴ ] ’’اور بے شک وہ تیرے لیے اور تیری قوم کے لیے نصیحت (یا شہرت کا باعث) ہے اور عنقریب تم سے پوچھا جائے گا۔‘‘ پھر اس قرآن نے عربی زبان کو ایسا محفوظ کیا کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود عربی زبان اصل صورت میں موجود ہے، جبکہ دوسری تمام زبانیں کچھ عرصہ بعد بدل جاتی ہیں، حتیٰ کہ پہلے لفظ بالکل ہی متروک ہو جاتے ہیں، جیسا کہ انگریزی وغیرہ کا حال ہے۔ خود عربی کو دیکھ لیجیے کہ قرآن کی وجہ سے فصیح عربی محفوظ ہے، مگر عام لوگوں کی عربی بھی مختلف علاقوں اور مختلف ادوار کے لحاظ سے اتنی مختلف ہے کہ ایک علاقے کا عرب دوسرے علاقے کی عامی زبان نہیں سمجھتا۔ البتہ اصل عربی کو قرآن نے صدیوں سے اصل صورت میں باندھ رکھا ہے، وہ دنیا بھر میں ایک ہی ہے۔ 2۔ وَ لَىِٕنِ اتَّبَعْتَ اَهْوَآءَهُمْ.....: یہ خطاب بظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے لیکن مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب اور اس کے غصے سے ڈرنے والا ہے اور اس میں وعید ہے ان علماء کے لیے جو جانتے بوجھتے سنت کی راہ چھوڑ کر بدعت و ضلالت اور قرآن و حدیث چھوڑ کر اقوالِ رجال کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ (ابن کثیر)