مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ
اس جنت کی صفت، جس کا وعدہ پرہیزگاروں کو دیا گیا ہے یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس کا میوہ ہمیشگی والا ہے اور اس کا سایہ بھی یہ ہے انجام پر ہزگاروں کا (١) اور کافروں کا انجام دوزخ ہے۔
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِيْ.....: ’’ مَثَلُ ‘‘ کا معنی یہاں صفت یا حال ہے، اہل جہنم کے ذکر کے بعد متقی لوگوں کو ملنے والی جنت کا حال اور اس کی صفت بیان فرمائی کہ اس کے درختوں اور مکانوں کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی، اس کا پھل دائمی ہے، یہ نہیں کہ کبھی ہو اور کبھی نہ ہو، اسی طرح اس کا سایہ بھی دائمی ہے، اس کے پھل نہ ختم ہوں گے، نہ کسی جنتی کو ان سے کوئی رکاوٹ ہو گی۔ (دیکھیے واقعہ : ۳۳) جنت کی نہروں کی صفت کے لیے سورۂ محمد (۱۵) اور سائے کی حالت کے لیے سورۂ دہر (۱۴)، نساء (۵۷) اور طٰہٰ (۱۱۸، ۱۱۹) ملاحظہ فرمائیں۔ مزید تفصیل کے لیے اس مقام پر تفسیر ابن کثیر اور کتب احادیث میں جنت اور جہنم کے احوال کے ابواب ملاحظہ فرمائیں۔