وَلَوْ أَنَّ قُرْآنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ أَوْ قُطِّعَتْ بِهِ الْأَرْضُ أَوْ كُلِّمَ بِهِ الْمَوْتَىٰ ۗ بَل لِّلَّهِ الْأَمْرُ جَمِيعًا ۗ أَفَلَمْ يَيْأَسِ الَّذِينَ آمَنُوا أَن لَّوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيعًا ۗ وَلَا يَزَالُ الَّذِينَ كَفَرُوا تُصِيبُهُم بِمَا صَنَعُوا قَارِعَةٌ أَوْ تَحُلُّ قَرِيبًا مِّن دَارِهِمْ حَتَّىٰ يَأْتِيَ وَعْدُ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ
اگر (بالفرض) کے کسی قرآن (آسمانی کتاب) کے ذریعہ پہاڑ چلا دیے جاتے یا زمین ٹکڑے ٹکڑے کردی جاتی یا مردوں سے باتیں کرا دی جاتیں (پھر بھی وہ ایمان نہ لاتے)، بات یہ ہے کہ سب کام اللہ کے ہاتھ میں ہے، (١) تو کیا ایمان والوں کو اس بات پر دل جمعی نہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو ہدایت دے دے۔ کفار کو تو ان کے کفر کے بدلے ہمیشہ کوئی نہ کوئی سخت سزا پہنچتی رہے گی یا ان کے مکانوں کے قریب نازل ہوتی رہے گی (٢) تاوقتیکہ وعدہ الٰہی آپہنچے (٣) یقیناً اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
1۔ وَ لَوْ اَنَّ قُرْاٰنًا سُيِّرَتْ بِهِ الْجِبَالُ ....: ’’ قُرْاٰنًا ‘‘ نکرہ ہے، کوئی قرآن، یعنی پڑھی جانے والی کوئی کتاب۔ ’’لَوْ ‘‘ شرطیہ ہے، اس کا جواب محذوف ہے، جو آیت کے سیاق و سباق سے خود بخود معلوم ہو رہا ہے اور قرآن مجید کے دوسرے مقامات پر موجود بھی ہے۔ تفاسیر میں دو جواب مذکور ہیں اور دونوں درست ہیں، ایک تو یہ کہ اگر واقعی کوئی ایسا قرآن ہوتا جس کے ذریعے سے پہاڑ چلائے جاتے، یا اس کے ذریعے سے زمین قطع کی جاتی، یا اس کے ذریعے سے مُردوں سے کلام کیا جاتا تو پھر بھی یہ لوگ ایمان نہ لاتے، کیونکہ یہ ضد اور عناد کی وجہ سے انکار کر رہے ہیں۔ ان تین چیزوں کا خصوصاً ذکر اس لیے کیا کہ قرآن مجید کے معجزے کے بعد، جس کے چیلنج کے مقابلے میں سب لاجواب ہو چکے تھے، اب وہ لوگ خصوصاً انھی تین چیزوں کے دکھانے کا مطالبہ کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب لاجواب ہونے کے باوجود یہ لوگ اس قرآن پر ایمان نہیں لائے تو اگر کوئی ایسا قرآن بھی آ جائے جس سے ان کے مطالبے پورے ہوں، پھر بھی یہ ایمان نہیں لائیں گے، کیونکہ تمام کام تو اللہ کے ہاتھ میں ہیں اور یہ لوگ جب عناد کی وجہ سے اس قرآن پر ایمان نہ لا کر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا نشانہ بن چکے ہیں، جو سب معجزوں سے بڑا معجزہ ہے، تو اپنے مطلوبہ معجزے دیکھ لینے کے بعد بھی اللہ کی ناراضگی کی وجہ سے ان کو ایمان لانے کی توفیق کیسے ملے گی اور کہاں سے ملے گی۔ جب کوئی جان بوجھ کر آنکھیں ہی بند کر لے تو کوئی اسے کس طرح دکھا سکتا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَوْ اَنَّنَا نَزَّلْنَا اِلَيْهِمُ الْمَلٰٓىِٕكَةَ وَ كَلَّمَهُمُ الْمَوْتٰى وَ حَشَرْنَا عَلَيْهِمْ كُلَّ شَيْءٍ قُبُلًا مَّا كَانُوْا لِيُؤْمِنُوْا اِلَّا اَنْ يَّشَآءَ اللّٰهُ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ يَجْهَلُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۱۱ ] ’’اور اگر واقعی ہم ان کی طرف فرشتے اتار دیتے اور ان سے مُردے گفتگو کرتے اور ہم ہر چیز ان کے پاس سامنے لا جمع کرتے توبھی وہ ایسے نہ تھے کہ ایمان لے آتے مگر یہ کہ اللہ چاہے اور لیکن ان کے اکثر جہالت برتتے ہیں۔‘‘ اس آیت سے ’’ لَوْ ‘‘ کا جواب صراحت کے ساتھ معلوم ہو رہا ہے۔ دوسرا جواب اس ’’ لَوْ ‘‘ کا یہ ہے کہ ان صفات کا حامل اگر کوئی قرآن ہوتا تو وہ یہی قرآن تھا، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ﴾ [ الحشر : ۲۱ ] ’’اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے تو یقیناً تو اسے اللہ کے ڈر سے پست ہونے والا، ٹکڑے ٹکڑے ہونے والا دیکھتا۔‘‘اس میں اس قرآن کی عظمت کا بیان ہے کہ تم جو مطالبے کر رہے ہو قرآن کے لیے ان میں سے کوئی بھی پورا کرنا مشکل نہیں، مگر سارا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور ایسا کرنا اس کی حکمت کے خلاف ہے، کیونکہ اس کے بعد ایمان نہ لانے کی صورت میں تمھیں عذاب سے ملیامیٹ کر دیا جاتا، جیسا کہ پہلی امتوں کے ساتھ ہوا۔ 2۔ اَفَلَمْ يَايْـَٔسِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا: مفسرین نے ’’ اَفَلَمْ يَايْـَٔسِ ‘‘ کے دو معنی لکھے ہیں، ایک معنی ہے کہ’’أَفَلَمْ يَعْلَمْ ‘‘ کہ کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں انھیں معلوم نہیں ہوا کہ جن نشانیوں کا یہ لوگ مطالبہ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے دکھانے پر قادر ہے، کیونکہ اسے ہر چیز کا اختیار ہے، مگر اس توقع پر ان نشانیوں کا دکھانا بے سود ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ لوگ اتنے سرکش اور ضدی ہیں کہ یہ نشانیاں دیکھ کر بھی ایمان نہیں لائیں گے اور ’’اَفَلَمْ يَايْـَٔسِ ‘‘ کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کیا ابھی مسلمان ان کے ایمان لانے سے مایوس نہیں ہوئے، حالانکہ وہ جانتے ہیں…۔ 3۔ اَنْ لَّوْ يَشَآءُ اللّٰهُ لَهَدَى النَّاسَ جَمِيْعًا : یعنی ہدایت تو اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے جو ان نشانات کے دکھائے بغیر بھی ہو سکتی ہے۔ (شوکانی) 4۔ وَ لَا يَزَالُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ....: یعنی یہ کفار مکہ نشانیوں کو دیکھ کر مان لینے والے نہیں ہیں۔ یہ مانیں گے تو اس طرح کہ ان کے کرتوتوں کی سزا میں آئے دن کوئی نہ کوئی آفت ان پر نازل ہوتی رہے، جیسے قتل، قید، قحط یا بیماری وغیرہ۔ چنانچہ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’لیکن کافر مسلمان یوں ہوں گے کہ ان پر آفت پڑتی رہے گی، ان پر پڑے یا ہمسائے پر، جب تک سارے عرب ایمان میں آ جائیں۔ وہ آفت یہی تھی جہاد مسلمانوں کے ہاتھ سے۔‘‘ (موضح) 5۔ اَوْ تَحُلُّ قَرِيْبًا مِّنْ دَارِهِمْ: یعنی وہ آفت ان کے آس پاس والوں پر اترے گی اور وہ ان کا حال دیکھ کر عبرت حاصل کریں گے۔ 6۔ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيْعَادَ: چنانچہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوا، قریش میں سے بعض لوگ مارے گئے اور بعض قید ہوئے، یہاں تک کہ اللہ کا وعدہ پورا ہوا، یعنی مکہ فتح ہوا۔