الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُم بِذِكْرِ اللَّهِ ۗ أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ
جو لوگ ایمان لائے ان کے دل اللہ کے ذکر سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ یاد رکھو اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو تسلی حاصل ہوتی ہے (١)
اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ تَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ ....: یہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والوں کی صفت ہے، ذکر کا معنی نصیحت بھی ہے اور یاد کرنا بھی۔ اس لحاظ سے آیت کے دو معنی ہو سکتے ہیں، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ انھی کو اپنی طرف ہدایت دیتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل کو وحی الٰہی سے ملنے والی نصیحت سے پوری تسلی ہو جاتی ہے، اس کے سوا انھیں کہیں سے تسلی نہیں ہوتی، کوئی دوسرا اپنے خیال میں کیسی اچھی بات کیوں نہ کہے انھیں اس پر یقین نہیں ہوتا، کیونکہ وہ بھی ان جیسا انسان ہے، اس کی بات درست بھی ہو سکتی ہے اور غلط بھی، اس لیے اس پر انھیں اطمینان نہیں ہوتا، صرف اللہ کی بات ایسی ہے جو غلط نہیں ہوتی، اس لیے اسی پر ان کے دل کو یقین و اطمینان ہوتا ہے۔ ’’ذكر الله‘‘ یعنی اللہ کی نصیحت صرف رسول پر نازل ہوئی، قرآن کی صورت میں بھی اور حدیث کی صورت میں بھی، پھر اس کی حفاظت کا ذمہ بھی اللہ تعالیٰ نے خود اٹھایا، فرمایا : ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ [ الحجر : ۹ ] ’’بے شک ہم نے ہی یہ نصیحت نازل کی ہے اور بے شک ہم اس کی ضرور حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ کافر اس نعمت سے محروم ہیں۔ خلاصہ یہ کہ ہدایت کی نعمت صرف اسی کو ملتی ہے جو اس کے لیے اللہ کی طرف رجوع کرے، ایمان لائے اور وحی الٰہی سے اسے پوری تسلی حاصل ہو جائے۔ کوئی شخص اگر ایمان کا دعویٰ کرے مگر اسے قرآن و حدیث کے بجائے تسلی کسی اور کی بات سے ہوتی ہو تو وہ بدنصیب بھی ہدایت الٰہی سے محروم ہے۔ ’’ذكر الله‘‘ کا دوسرا معنی یاد الٰہی ہے۔ مولانا محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ ایمان کے خالص اور پختہ ہونے کی علامت ہے کہ ذہن خواہ کتنی ہی فکروں میں الجھا ہوا ہو لیکن جوں ہی نماز شروع کرے یا اللہ کو یاد کرے تو تمام فکر بھول جائیں اور انسان حقیقی اطمینان قلب سے بہرہ ور ہو جائے۔‘‘ یہاں اگرچہ دونوں معنوں کی گنجائش ہے مگر پہلا معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ کافر نشانی مانگ رہے ہیں جبکہ سب سے بڑی نشانی قرآن موجود ہے۔ اہل ایمان کو اسی سے اطمینان ہو جاتا ہے، جبکہ کافر بدنصیب شک ہی میں مارا جاتا ہے اور مزید معجزے مانگتا رہتا ہے ۔