وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ
اور وہ اپنے رب کی رضامندی کی طلب کے لئے صبر کرتے ہیں (١) اور نمازوں کو برابر قائم رکھتے ہیں (٢) اور جو کچھ ہم نے انھیں دے رکھا ہے اسے چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں (٣) اور برائی کو بھی بھلائی سے ٹالتے ہیں (٤) ان ہی کے لئے عاقبت کا گھر ہے (٥)۔
1۔ وَ الَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ : یعنی ہر اس مقام پر جہاں صبر قابل تعریف ہے وہ محض اللہ کے چہرے کی خاطر صبر کرتے ہیں، تاکہ وہ راضی ہو جائے۔ نہ ریا (دکھاوے) کے لیے، نہ سُمعہ (شہرت) کے لیے کہ لوگ کہیں واہ کیا صابر شخص ہے۔ صبر کا معنی روکنا، باندھنا ہے۔ اپنے آپ کو اللہ کے احکام کی پابندی پر قائم رکھنا ’’صَبْرٌ عَلَي الطَّاعَةِ‘‘ ہے، اس کی نافرمانی سے رکنا ’’ صَبْرٌ عَنِ الْمَعْصِيَةِ ‘‘ ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی مصیبت، مثلاً بیماری، فاقہ، خوف یا اموات وغیرہ پر اپنے آپ کو جزع فزع سے روکنا اور اسے اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی تقدیر سمجھ کر کسی شکوہ و شکایت کے بغیر برداشت کرنا ’’صَبْرٌ عَلَي الْمُصِيْبَةِ‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی خاطر صبر کی یہ تمام صورتیں ’’ اُولُوا الْاَلْبَابِ ‘‘ کی صفت ہیں۔ 2۔ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ : اس کی تفسیر کے لیے سورۂ بقرہ کی آیت (۳) ملاحظہ فرمائیں۔ 3۔ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِيَةً: فرض زکوٰۃ علانیہ دینا افضل ہے، تاکہ کفر کی تہمت سے بچے، نفل صدقہ دوسروں کو ترغیب دلانے کے لیے علانیہ ہو اور ریا سے پاک ہو تو بہت ہی اچھا ہے، مگر علانیہ صدقے میں ریا کا امکان ہے، اس لیے پوشیدہ صدقے کا جواب ہی نہیں ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۲۷۱) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کا سایہ پانے والوں میں سے ایک وہ بھی ہے جو دائیں ہاتھ سے صدقہ کرے تو بائیں کو خبر بھی نہ ہو۔ [ بخاري، الأذان، باب من جلس فی المسجد....: ۶۶۰ ] 4۔ وَ يَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ : ’’دَرَءَ يَدْرَءُ دَرْءً ‘‘ (ف) ہٹانا، دفع کرنا، دور کرنا، یعنی ’’ اُولُوا الْاَلْبَابِ ‘‘ کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹاتے ہیں، یعنی برائی کا جواب بھلائی سے دیتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ لَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَ لَا السَّيِّئَةُاِدْفَعْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَ بَيْنَهٗ عَدَاوَةٌ كَاَنَّهٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ (34) وَ مَا يُلَقّٰىهَا اِلَّا الَّذِيْنَ صَبَرُوْا وَ مَا يُلَقّٰىهَا اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِيْمٍ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۳۴، ۳۵ ] ’’اور نہ نیکی برابر ہوتی ہے اور نہ برائی۔ (برائی کو) اس (طریقے) سے ہٹا جو سب سے اچھا ہے، تو اچانک وہ شخص کہ تیرے درمیان اور اس کے درمیان دشمنی ہے، ایسا ہو گا جیسے وہ دلی دوست ہے۔ اور یہ چیز نہیں دی جاتی مگر انھی کو جو صبر کریں اور یہ نہیں دی جاتی مگر اسی کو جو بہت بڑے نصیب والا ہے۔‘‘ یہ طریقہ ذاتی عداوتوں اور زیادتیوں کے جواب کا ہے کہ زیادتی کے جواب میں صبر کرے اور معاف کر دے۔ رہا اللہ کے دین پر زیادتی اور اللہ کے احکام کے مقابلے میں سرکشی اور عناد کا جواب بہترین طریقے سے دینا تو اس کی صورت دوسری ہے۔ وہاں برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹانے کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی کافر یا اللہ کا باغی دین پر زیادتی کر رہا ہو تو آپ اسے برداشت کریں اور صبر کریں، بلکہ اس برائی کو بہترین طریقے سے ہٹانا نہ اسے آزاد چھوڑنا ہے نہ معاف کرنا، بلکہ یہاں اسے ہٹانے کا بہترین طریقہ وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا اور اس کا حکم دیا کہ جو شخص تم میں سے کوئی منکر (برائی) دیکھے اسے ہاتھ سے روک دے، اگر اس کام کی قوت نہیں تو زبان سے روکے اور اگر اتنی بھی قوت نہیں تو (کم از کم) اسے دل میں برا سمجھے۔ [ مسلم، الإیمان، باب بیان کون النہی ....: ۴۹ ] یہاں سب سے اچھا طریقہ (بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ) جہاد فی سبیل اللہ ہے اور اس کا نتیجہ بھی یہی ہے کہ یک لخت ہی جانی دشمن دلی دوست بن جاتے ہیں۔ دیکھیے ثمامہ بن اثال، ہندہ، عکرمہ بن ابی جہل، خالد بن ولید رضی اللہ عنھم اور عرب کے وہ سردار جو کسی صورت ایمان قبول کرنے والے نظر نہ آتے تھے، جہاد کی نیکی کی برکت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار دوست بن گئے۔ ’’برائی کو نیکی کے ساتھ ہٹاتے ہیں‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ وہ نیک عمل کرکے برے عمل کو مٹا دیتے ہیں، جیسے فرمایا : ﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ [ ھود : ۱۱۴ ] ’’بے شک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔‘‘ اور ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَأَتْبِعْهَا حَسَنَةً تَمْحُهَا)) [أحمد :5؍169، ح : ۲۱۵۴۳، صحیح ] ’’جب تم کوئی برائی کرو تو اس کے بعد کوئی نیکی کرو، وہ اسے مٹا دے گی۔‘‘ اور فرمایا : (( وَ إِذَا عَمِلْتَ سَيِّئَةً فَاعْمَلْ بِجَنْبِهَا حَسَنَةً السِّرُّ بِالسِّرِّ وَالْعَلاَنِيَةُ بِالْعَلاَنِيَةِ)) [سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :3؍462، ح : ۱۴۷۵ ] ’’جب تم کوئی برائی کرو تو اس کے ساتھ ہی نیکی کر لو، وہ اسے مٹا دے گی، پوشیدہ برائی کو پوشیدہ نیکی کے ساتھ اور علانیہ برائی کو علانیہ نیکی کے ساتھ مٹاؤ۔‘‘ 5۔ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ : ’’ عُقْبَى ‘‘ ’’ عَاقِبَةٌ ‘‘ کی طرح مصدر ہے، وہ چیز جو کسی چیز کے پیچھے آئے، عام طور پر یہ لفظ اچھے انجام کے معنی میں آتا ہے۔ ’’ الدَّارِ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے، یہ گھر یعنی دنیا، یعنی ان صفات والوں کے لیے دنیا کے گھر کے بعد کا انجام بہت اچھا ہے۔