سورة یوسف - آیت 107

أَفَأَمِنُوا أَن تَأْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ مِّنْ عَذَابِ اللَّهِ أَوْ تَأْتِيَهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا وہ اس بات سے بے خوف ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کے عذابوں میں سے کوئی عام عذاب آجائے یا ان پر اچانک قیامت ٹوٹ پڑے اور وہ بے خبری میں ہوں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَفَاَمِنُوْا اَنْ تَاْتِيَهُمْ غَاشِيَةٌ ....: ’’غَشِيَ يَغْشٰي غَشْيًا وَ غَشَيَانًا‘‘ ہر جانب سے گھیر لینا، ڈھانک لینا، جیسے فرمایا : ﴿ وَ اِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ ﴾ [ لقمان : ۳۲ ] ’’اور جب انھیں سائبانوں جیسی عظیم موج ڈھانک لیتی ہے۔‘‘ غاشیہ وہ حادثہ جو چاروں طرف سے گھیر لے۔ عرب ایسے حوادث کو مؤنث ہی استعمال کرتے ہیں، مثلاً ’’اَلطَّامَّةُ، اَلصَّاخَّةُ، اَلدَّاهِيَةُ، اَلْمُصِيْبَةُ، اَلْكَارِثَةُ، اَلْحَادِثَةُ، اَلْوَاقِعَةُ، اَلْحَآقَّةُ‘‘ اس آیت میں مشرکین کے لیے سخت وعید ہے کہ کچھ بعید نہیں کہ کسی بھی وقت ان پر ہر طرف سے گھیرنے والا عذاب آ جائے، مثلاً زلزلہ، طاعون، سیلاب اور طوفان وغیرہ۔ 2۔ ’’ بَغْتَةً ‘‘ ’’ بَغَتَ ‘‘ (ف) سے مصدر بمعنی اسم فاعل حال ہے ( بَاغِتًا ) اچانک۔