اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَٰذَا فَأَلْقُوهُ عَلَىٰ وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ
میرا یہ کرتا تم لے جاؤ اور اسے میرے والد کے منہ پر ڈال دو کہ وہ دیکھنے لگیں (١) اور آجائیں اور اپنے تمام خاندان کو میرے پاس لے آؤ (٢)۔
اِذْهَبُوْا بِقَمِيْصِيْ.....: بھائیوں کو معاف کر دینے کے بعد گھر کے حالات کا تذکرہ ہوا، والد کے نابینا ہونے کی خبر پر ان کے علاج کے لیے اپنی قمیص بھیجی اور اپنے سارے گھر والوں کو اپنے پاس مصر میں لانے کا حکم دیا۔ یہ قمیص بھی عجیب تھی، کبھی یوسف علیہ السلام کو بھیڑیے کے کھا جانے کے ثبوت پر پیش کی گئی اور والد کو نابینا کر گئی اور کبھی یوسف علیہ السلام پر ارادۂ زنا کی تہمت لگی تو یہ ان کی صفائی بن گئی، اب اللہ کا حکم ہوا تو یعقوب علیہ السلام کی بینائی واپس ملنے کا ذریعہ بن گئی۔ یہ سب میرے مالک کی قدرت و مشیت ہے : ﴿ فَسُبْحٰنَ الَّذِيْ بِيَدِهٖ مَلَكُوْتُ كُلِّ شَيْءٍ وَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ [ یسٓ : ۸۳ ] ’’سو پاک ہے وہ کہ اسی کے ہاتھ میں ہر چیز کی کامل بادشاہی ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی ہر مرض کی اللہ کے ہاں دوا ہے، ایک شخص کے فراق میں یعقوب علیہ السلام کی آنکھیں ضائع ہو گئیں، اس کے بدن کی چیز ملنے سے درست ہو گئیں، یہ یوسف علیہ السلام کی کرامت تھی۔‘‘ (موضح) اور خوشی کی شدت سے بینائی میں قوت پیدا ہو جانا طبی طور پر ثابت ہے۔ (رازی) مگر طبی طور پر اس کی کوئی مثال ہمارے سامنے نہیں کہ خوشی سے نابینا بینا ہو جائے، اس لیے اسے معجزہ ہی کہا جائے گا۔