قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ۖ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
جواب دیا آج تم پر کوئی ملامت نہیں ہے (١) اللہ تمہیں بخشے، وہ سب مہربانوں سے بڑا مہربان ہے۔
1۔ قَالَ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ:’’ تَثْرِيْبَ ‘‘ کے معنی ملامت، ڈانٹ ڈپٹ، گناہ یاد دلانا سبھی آتے ہیں۔ فرمایا تمھیں ہر گز کوئی ملامت نہیں کرتا، نہ ڈانٹ ڈپٹ، نہ تمھیں کوئی یہ زیادتی یاد دلائے گا۔ ’’ الْيَوْمَ ‘‘ کا معنی صرف آج کا دن نہیں بلکہ مطلق زمانے کے لیے ہے، یعنی اب آئندہ تم پر کوئی ملامت نہیں۔ 2۔ یہ ہے شان نبوت، اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا تو ایسے قصور واروں پر قابو پا لینے کے بعد انھیں ہرگز معاف نہ کرتا۔ یہی سلوک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے بعد وہاں کے رہنے والوں سے فرمایا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ (فتح مکہ کے دن) قریش کے سرداروں اور بڑے بڑے لوگوں نے کعبہ میں پنا لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، بیت اللہ کا طواف کیا اور ان (۳۶۰) بتوں کے پاس سے گزرتے ہوئے انھیں کمان کے کنارے کے ساتھ ٹھوکا مارتے گئے اور یہ فرماتے گئے : ﴿ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۸۱ ] جب فارغ ہوئے اور نماز پڑھ لی تو آکر دروازے کی چوکھٹ کے دونوں کناروں کو پکڑا، پھر فرمایا : ’’اے معشر قریش! (بولو) کیا کہتے ہو؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’ہم کہتے ہیں (آپ) رحیم و کریم بھتیجے اور چچا زاد (بھائی) ہیں۔‘‘ آپ نے پھر ان کے سامنے اپنی بات دہرائی، انھوں نے وہی جواب دیا، تو آپ نے فرمایا : ’’پھر میں وہی کہتا ہوں جو میرے بھائی یوسف نے کہا تھا : ﴿ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِيْنَ ﴾ چنانچہ وہ سب نکل کر آئے اور آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کی۔ [ السنن الکبریٰ للنسائي :6؍382، ۳۸۳ح : ۱۱۲۹۸ ] یہ ہے اصل صلہ رحمی، عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ الْوَاصِلُ بِالْمُكَافِئِ وَلَكِنَّ الْوَاصِلُ الَّذِيْ إِذَا قُطِعَتْ رَحِمُهٗ وَصَلَهَا)) [ بخاري، الأدب، باب لیس الواصل بالمکافئ : ۵۹۹۱ ] ’’صلہ رحمی کرنے والا وہ نہیں جو صلہ رحمی کے مقابلے میں صلہ رحمی کرتا ہے، بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اس کی رشتہ داری قطع کی جائے تو وہ اسے ملائے۔‘‘ 3۔ يَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ ....: یوسف علیہ السلام نے نہ صرف انھیں معاف فرما دیا بلکہ ان کی درخواست کے بغیر ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحم کی دعا بھی کر دی۔