قَالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ آثَرَكَ اللَّهُ عَلَيْنَا وَإِن كُنَّا لَخَاطِئِينَ
انہوں نے کہا اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے تجھے ہم پر برتری دی ہے اور یہ بھی بالکل سچ ہے کہ ہم خطا کار تھے (١)
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ ....: بھائیوں کے سامنے اپنے ظلم و ستم کا وہ سارا منظر آگیا جو ان کے ہاتھوں ہوا تھا تو انھوں نے قسم کھا کر اعتراف کیا کہ یقیناً اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر، تقویٰ اور دوسری صفات حسنہ کی وجہ سے ہم پر برتری اور فوقیت عطا فرمائی ہے۔ ’’ وَ اِنْ كُنَّا ‘‘ اصل میں ’’اِنَّا كُنَّا‘‘ تھا، جس کی دلیل ’’خَاطِئِيْنَ‘‘ پر آنے والا لام ہے۔ ’’اِنَّ‘‘ اور لام کے ساتھ تاکید بھی قسم ہی کی ایک صورت ہے کہ یقیناً ہم آپ پرظلم کرکے جانتے بوجھتے ہوئے غلط اور گناہ کا کام کرنے والے تھے۔ ’’خَاطِئِيْنَ‘‘ اور ’’ مُخْطِئِيْنَ ‘‘ کے فرق کے لیے دیکھیے آیت (۲۹) کی تفسیر۔ بھائیوں کے اعتراف گناہ کے بعد یوسف علیہ السلام کی سینے کی وسعت اور حوصلہ مندی دیکھیے، ابھی انھوں نے صرف گناہ کا اعتراف اور عذر ہی کیا ہے، معافی مانگنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی بول اٹھے : ﴿ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ﴾ کہ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔