قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
انہوں نے کہا کہ میں تو اپنی پریشانیوں اور رنج کی فریاد اللہ ہی سے کر رہا ہوں مجھے اللہ کی طرف سے وہ باتیں معلوم ہیں جو تم نہیں جانتے (١)۔
1۔ قَالَ اِنَّمَا اَشْكُوْا بَثِّيْ ....: ’’ بَثَّ يَبُثُّ‘‘ کا لفظی معنی پھیلانا ہے، فرمایا : ﴿ وَ بَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّ نِسَآءً ﴾ [النساء : ۱ ] ’’اور ان دونوں میں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں ۔‘‘ ’’بَثَّ الرِّيْحُ التُّرَابَ‘‘ ’’ہوا نے مٹی اڑائی۔‘‘ آدمی پر جب مصائب آئیں تو ان سے پیدا ہونے والے جس غم کو وہ چھپا سکے وہ حزن کہلاتا ہے اور جو چھپا نہ سکے ’’بَثٌّ‘‘ کہلاتا ہے۔ اس آیت پر شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یعنی تم کیا مجھے صبر سکھاؤ گے، بے صبر وہ ہے جو خلق کے آگے شکایت کرے خالق کی، میں تو اسی سے کہتا ہوں جس نے درد دیا اور یہ بھی جانتا ہوں کہ مجھ پر آزمائش ہے، دیکھوں کس حد کو پہنچ کر بس ہو۔‘‘ (موضح) حقیقت یہ ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے غم کا جو حال اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے وہ پڑھ اور سن کر ہی دل سخت غم زدہ ہو جاتا ہے، پھر خود ان کا کیا حال ہو گا۔ عبد اللہ بن شداد کہتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اللہ عنہ کے روتے ہوئے دھاڑیں مارنے کی آواز سنی، حالانکہ میں صفوں کے آخر میں تھا، وہ یہ پڑھ رہے تھے : ﴿ اِنَّمَا اَشْكُوْا بَثِّيْ وَ حُزْنِيْ اِلَى اللّٰهِ ﴾ [ بخاري، الأذان، باب إذا بکی الإمام فی الصلاۃ، قبل ح : ۷۱۶ ] 2۔ وَ اَعْلَمُ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ: یعنی یوسف زندہ ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ میرے اور تمھارے سجدہ کرنے کا خواب جو انھوں نے دیکھا تھا، سچا ہو گا، مجھے اس کا پورا یقین ہے اور اللہ تعالیٰ میری یہ امید بر لائے گا۔ اتنی مدت گزرنے اور اتنے غم کے باوجود جس میں یوسف علیہ السلام کی زندگی کی امید باقی رہنا بھی ممکن نظر نہیں آتا، ان کی ملاقات کی امید رکھنا یعقوب علیہ السلام کے کمال ایمان کا نتیجہ ہے۔