إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ ۙ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ
جو لوگ ہماری اتاری ہوئی دلیلوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں باوجودیکہ ہم اسے اپنی کتاب میں لوگوں کے لئے بیان کرچکے ہیں، ان لوگوں پر اللہ کی اور تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت ہے۔
1۔ ”اَللَّعْنَةُ“ کا اصل معنی ”اَلطَّرْدُ“ یعنی دور دفع کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لعنت سے مراد ملعون شخص کو اپنے پاس سے اور اپنی رحمت سے دورکرنا ہے اور دوسرے تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت سے مراد اللہ تعالیٰ سے اسے دور کرنے کی دعا کرنا ہے۔ لعنت کرنے والوں سے مراد تمام مومن جن و انس اور فرشتے ہیں ۔ (طبری) 2۔”الْكِتٰبِ“ سے مراد یہاں تورات ہے اور ’’ لِلنَّاسِ ‘‘ سے مراد خاص لوگ یعنی یہود کے علماء ہیں ، یعنی علمائے یہود کے لیے تورات و انجیل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی واضح خوش خبری اور صفات بیان ہونے کے بعد ان میں سے جو لوگ اسے چھپاتے اور اس کا انکار کرتے ہیں ان پر لعنت ہے۔ اگرچہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی مگر آیت کے الفاظ عام ہیں ، اس میں وہ مسلم علماء بھی شامل ہیں جو قرآن و حدیث کی بات جانتے ہوئے اسے چھپا جاتے ہیں اور اپنے فرقے کی بات کو دین ظاہر کرکے بیان کر دیتے ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ((مَن سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ )) ’’جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔‘‘ [ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : ۲۶۴۹۔ أحمد :2؍263، ح : ۷۵۸۸۔أبو داؤد : ۳۶۵۸، عن أبی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ و صححہ الألبانی] 3۔ اگر کسی مسئلہ سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہو اور عوام میں فتنہ و فساد کا خوف ہو تو اسے عوام کے سامنے بیان نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہاں مقصود حق کا چھپانا نہیں ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو ’’ لاَ اِلٰهَ اِلاَّ اللّٰهُ ‘‘ پر جنت کی بشارت عام لوگوں کو بیان کرنے سے منع کر دیا تھا۔ [ مسلم، الإیمان، باب الدلیل علی أن من .... : ۳۱] اور علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’لوگوں سے وہ بات بیان کرو جسے وہ سمجھ سکیں ، کیا تم پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسول کو جھوٹا کہا جائے؟‘‘ [ بخاری، العلم، باب من خص بالعلم قومًا ....، قبل ح : ۱۲۷] اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تم کسی قوم کو ایسی بات بیان کرو گے جس تک ان کی عقلیں نہ پہنچتی ہوں تو ضرور ان میں سے کسی کے لیے وہ فتنہ بنے گی۔‘‘ [ مسلم، المقدمۃ، باب النہی عن الحدیث بکل ما سمع :۵؍۱۴]