وَاتَّبَعْتُ مِلَّةَ آبَائِي إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ مَا كَانَ لَنَا أَن نُّشْرِكَ بِاللَّهِ مِن شَيْءٍ ۚ ذَٰلِكَ مِن فَضْلِ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى النَّاسِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَشْكُرُونَ
میں اپنے باپ دادوں کے دین کا پابند ہوں، یعنی ابراہیم و اسحاق اور یعقوب کے دین کا (١) ہمیں ہرگز یہ سزاوار نہیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو بھی شریک کریں (٢) ہم پر اور تمام اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص فضل ہے، لیکن اکثر لوگ ناشکری کرتے ہیں۔
1۔ وَ اتَّبَعْتُ مِلَّةَ اٰبَآءِيْ....: پھر انھیں اپنا اور اپنے آباء کا تعارف کروایا، کیونکہ داعی کی شخصیت بھی دعوت قبول کرنے میں مددگار ہوتی ہے، چنانچہ فرمایا کہ میں نے اپنے آباء ابراہیم، اسحاق اور یعقوب علیھم السلام کی ملت اور ان کے دین کی پیروی کی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہم کسی صورت اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک کریں، خواہ وہ آدمی ہو یا فرشتہ، جن ہو یا بھوت پری، بت ہو یا قبر، پتھر ہو یا درخت، چاند سورج ہوں یا ستارے، غرض کسی کو بھی ہم ہر گز اللہ کا شریک نہیں بنا سکتے۔ ’’ مَا كَانَ لَنَا ‘‘ میں نفی کی ’’ كَانَ ‘‘ کے ساتھ تاکید کا یہی معنی ہے۔ نیک آباء کی پیروی سعادت ہے، جب کہ گمراہ آباء کی تقلید ضلالت ہے، جیسا کہ ان قیدیوں کو فرمایا : ﴿ اِلَّا اَسْمَآءً سَمَّيْتُمُوْهَا اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمْ ﴾ یعنی اللہ کے سوا جس کی بھی تم عبادت کرتے ہو وہ محض نام ہیں جو تم نے اور تمھارے آباء نے رکھ لیے ہیں، ایسے آباء کی پیروی گمراہی ہے۔ 2۔ ذٰلِكَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ عَلَيْنَا.....: یعنی توحید کی یہ سمجھ عطا کرنا ہم پر اللہ کے بے شمار احسانوں میں سے ایک احسان ہے۔ ’’وَ عَلَى النَّاسِ‘‘ اور لوگوں پر بھی احسان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعے سے ان کو توحید سمجھانے کا انتظام فرمایا، لیکن اکثر لوگ اس نعمت کی قدر نہیں کرتے۔