وَقَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِينَةِ امْرَأَتُ الْعَزِيزِ تُرَاوِدُ فَتَاهَا عَن نَّفْسِهِ ۖ قَدْ شَغَفَهَا حُبًّا ۖ إِنَّا لَنَرَاهَا فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اور شہر کی عورتوں میں چرچا ہونے لگا کہ عزیز کی بیوی اپنے (جوان) غلام کو اپنا مطلب نکالنے کے لئے بہلانے پھسلانے میں لگی رہتی ہے، ان کے دل میں یوسف کی محبت بیٹھ گئی ہے، ہمارے خیال میں تو وہ صریح گمراہی میں ہے (١)۔
وَ قَالَ نِسْوَةٌ فِي الْمَدِيْنَةِ ....: ’’ نِسْوَةٌ، نِسَاءٌ‘‘ اور ’’نِسْوَانٌ ‘‘ سب ’’اِمْرَأَةٌ‘‘ کی جمع ہیں، مگر ’’اِمْرَأَةٌ ‘‘ لفظ سے نہیں۔ (قاموس) ’’ نِسْوَةٌ ‘‘ کے ’’اِمْرَأَةٌ‘‘ کی جمع حقیقی نہ ہونے کی وجہ ہی سے فعل ’’ قَالَتْ نِسْوَةٌ ‘‘ کے بجائے : ’’قَالَ نِسْوَةٌ ‘‘ آیا ہے، کیونکہ غیر حقیقی جمع ہونے کی صورت میں ایسا ہو جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہر جگہ ’’نِسَاءٌ‘‘ آیا ہے، صرف اس آیت یا اسی سورت کی آیت (۵۰) میں کل دو مرتبہ ’’نِسْوَةٌ ‘‘ آیا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’نِسْوَةٌ ‘‘ جمع قلت کا وزن ہے، جو تین سے دس تک استعمال ہوتا ہے، بخلاف ’’نِسَاءٌ‘‘ وغیرہ کے کہ وہ کثرت کے لیے بھی آتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ عزیز کی بیوی نے چند ایک خاص عورتوں ہی کو اس مجلس کی دعوت دی تھی۔ ’’ شَغَفَهَا ‘‘ شغاف دل کے پردے کو کہتے ہیں، یعنی دل کے پردے کے اندر داخل ہو گیا ہے۔ بعض نے شغاف کا معنی ’’سویداء القلب‘‘ (دل کا مرکز) بھی کیا ہے۔ ’’ تُرَاوِدُ فَتٰىهَا ‘‘ (اپنے غلام کو پھسلاتی ہے) ان عورتوں نے ماضی کا صیغہ ’’ رَاوَدَتْ‘‘ (اس نے پھسلایا ہے) کے بجائے مضارع کا صیغہ استعمال کیا کہ وہ اب بھی اس سے باز نہیں آتی، بلکہ پھسلاتی رہتی ہے۔