سورة یوسف - آیت 21

وَقَالَ الَّذِي اشْتَرَاهُ مِن مِّصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَكْرِمِي مَثْوَاهُ عَسَىٰ أَن يَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا ۚ وَكَذَٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوسُفَ فِي الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِن تَأْوِيلِ الْأَحَادِيثِ ۚ وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَىٰ أَمْرِهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مصر والوں میں سے جس نے اسے خریدا تھا اس نے اپنی بیوی (١) سے کہا کہ اسے بہت عزت و احترام کے ساتھ رکھو، بہت ممکن ہے کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا اسے ہم اپنا بیٹا ہی بنا لیں، یوں ہم نے مصر کی سرزمین پر یوسف کا قدم جما دیا (٢)، کہ ہم اسے خواب کی تعبیر کا کچھ علم سکھا دیں۔ اللہ اپنے ارادے پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ بے علم ہوتے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ قَالَ الَّذِي اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖ : قرآن نے اس شخص کے نام اور عہدے کا کہیں ذکر نہیں کیا، البتہ آگے چل کر مصر کی عورتوں نے ’’عزیز‘‘ کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے اور یہی لقب بعد میں یوسف علیہ السلام کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شخص مصر کے بادشاہ کا کوئی وزیر یا بہت بڑے عہدے پر فائز شخص تھا۔ اس کی بیوی کا نام بھی قرآن نے کہیں ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس سے کوئی فائدہ نہ تھا، بلکہ یہ پردہ پوشی کے بھی خلاف تھا۔ اس لیے جو لوگ اس خاتون کا نام ’’زلیخا‘‘ (زاء کے فتحہ اور لام کے کسرہ کے ساتھ) یا ’’راعیل‘‘ بتاتے ہیں، ان کے پاس محض اسرائیلی روایات ہیں، کوئی پختہ دلیل نہیں اور ان کا یہ عمل ستر کے بھی خلاف ہے۔ اَكْرِمِيْ مَثْوٰىهُ عَسٰى اَنْ يَّنْفَعَنَا: عزیز مصر نے اپنی بیوی کو یوسف علیہ السلام کی رہائش باعزت رکھنے اور ہر ضرورت مہیا رکھنے کی تاکید کی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا اور اس کا تعلق مالک اور غلام والا ہونے کے بجائے گھر کے ایک معزز رکن کا ہونا چاہیے، بچہ نہایت ذہین اور اچھی عادات والا ہے، امید ہے ہمیں فائدہ دے گا۔ عزیز مصر مملکت کے کسی بھی شخص سے کام کروا سکتا تھا اور مطلوبہ فائدہ حاصل کر سکتا تھا مگر ماتحت نوکر جس طرح فائدہ پہنچاتے ہیں اور نہایت عزت و محبت سے پالے ہوئے اپنے گھر کے ایک فرد سے جس خیر خواہی اور فائدے کی امید ہوتی ہے، دونوں برابر نہیں ہو سکتے ۔ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًا : اس سے ظاہر ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق ماں باپ، بہن بھائی یا بیٹا بیٹی منہ کے کہہ دینے سے نہیں بنتے۔ دیکھیے سورۂ احزاب (۴،۵) اور مجادلہ (۲) ورنہ عزیز کی بیوی کا سگا بیٹا ہوتا تو وہ اس سے وہ معاملہ کبھی نہ کرتی جس کا ذکر آگے آ رہا ہے۔ اکثر گھروں میں اللہ کی اس نافرمانی کے ایسے ہی نتائج رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نہایت تاکید کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے۔ وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِيُوْسُفَ.....: اس کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ کہ اس طرح یعنی عزیز مصر کے ہاتھ فروخت کروا کر اور مصر کے اتنے عظیم مقام والے گھر میں باعزت رہائش دے کر ہم نے یوسف علیہ السلام کو سرزمین مصر میں جگہ دی (تاکہ وہ باعزت زندگی بسر کرے) تاکہ ایک حکمران کے گھر میں رہ کر سرداروں کی مجلسیں دیکھے اور حکمرانی اور سیاست کے اسرار و رموز سیکھے، جو صحرا میں رہنے سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتے تھے اور آخر میں ان کی وجہ سے بنی اسرائیل مصر میں آ کر آباد ہوں۔ دوسری یہ کہ جیسے ہم نے اس سے پہلے یوسف کو بھائیوں کے شر سے بچایا اور کنویں سے نکلوایا، اسی طرح ہم نے اسے سرزمین مصر میں جگہ بخشی۔ وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰى اَمْرِهٖ:’’ غَلَبَ ‘‘ کا لفظ وہاں بولا جاتا ہے جہاں کوئی مقابلے میں ہو۔ دیکھیے یوسف علیہ السلام کے بھائی کیا چاہتے تھے اور کنویں میں پھینکنے کے بعد اپنے خیال میں وہ کس قدر کامیاب ہو چکے تھے، مگر اللہ اپنے کام پر غالب ہے۔ وہ جو کرنا چاہے کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ کنویں سے نکال کر حکومت تک پہنچانا اور پھینکنے والوں کو سائل بنا کر اس کے سامنے لا کھڑا کرنا اس کے ادنیٰ اشارے کا کام ہے۔ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے شاعر نے بدر کے موقع پر کیا خوب کہا تھا: جَاءَتْ سَخِيْنَةُ كَيْ تُغَالِبَ رَبَّهَا وَلَيُغْلَبَنَّ مُغَالِبُ الْغَلَّابِ ’’قریش اس لیے آئے تھے کہ اپنے رب کے ساتھ غالب آنے کا مقابلہ کریں گے اور قسم ہے کہ اس زبردست غالب کا مقابلہ کرنے والا ہر صورت مغلوب ہو کر رہے گا۔‘‘(قریش کو سخینہ اس لیے کہتے تھے کہ وہ حاجیوں کی ضیافت گرم کھانے سے کرتے تھے)۔ ‘‘ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ: اور لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے کہ ہر قسم کا اختیار اللہ تعالیٰ ہی کے ہاتھ میں ہے، اس لیے وہ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کسی ظلم وستم کی کمی نہیں کرتے، مگر ہوتا وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کو منظور ہے، بخلاف تھوڑے لوگوں کے، جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے غالب رہنے پر اور اس کی تقدیر پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ نہ خوشی میں پھولتے ہیں نہ مصیبت میں حد سے زیادہ غم میں مبتلا ہوتے ہیں اور نہ کسی صورت اللہ کے حکم سے سر پھیرتے ہیں۔