وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی۔ پھر اس میں اختلاف کیا گیا، (١) اگر پہلے ہی آپ کے رب کی بات صادر نہ ہوگئی ہوتی تو یقیناً ان کا فیصلہ کردیا جاتا (٢) انھیں تو اس میں سخت شبہ ہے۔
1۔ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ فَاخْتُلِفَ فِيْهِ: سورۂ ہود واحد سورت ہے جس میں ایک ہی رسول کا ذکر دو بار ہوا ہے۔ اس سے پہلے یہ ذکر ہوا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا تھا کہ فرعون اور اس کے سرداروں کے پاس جائیں، آیات اور سلطان مبین پیش کریں اور جیسا کہ سورۂ طٰہٰ میں ذکر ہے، اس سے مطالبہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو عذاب دینا چھوڑ دے اور انھیں آزادی دے کر میرے ساتھ بھیج دے۔ اگرچہ اس کے ساتھ توحید و رسالت کی دعوت بھی تھی، مگر وہ مسلمان ہی نہیں ہوا کہ اس کے لیے مفصل احکام نازل ہوتے۔ اس وقت تمام احکام زبانی تھے، تورات نازل نہیں ہوئی تھی، اس لیے ساتھ ہی اس کا انجام ذکر کر دیا : ﴿يَقْدُمُ قَوْمَهٗ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَاَوْرَدَهُمُ النَّارَ ﴾ [ ہود : ۹۸ ] یعنی وہ قیامت کے دن اپنی قوم کے آگے چلتا ہوا انھیں جہنم میں لے جائے گا۔ موسیٰ علیہ السلام کی دوسری بعثت بنی اسرائیل کے لیے تھی۔ چنانچہ آزادی حاصل ہونے اور سمندر سے بخیریت نکل جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے طُور پر چالیس راتوں کا اعتکاف کروایا اور اس کے بعد انھیں تورات عطا فرمائی۔ اب موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون یا اس کے سردار نہیں تھے، ان کے ساتھ بنی اسرائیل تھے یا فرعون کی قوم میں سے مصر سے آنے والے چند نوجوان، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتٰبَ ﴾ کہ ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو کتاب (تورات) عطا فرمائی، مگر موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں اور اس کے بعد اس میں اختلاف کیا گیا۔ کسی نے تسلیم کیا، کسی نے انکار کر دیا، یا کسی نے کچھ احکام مان لیے کچھ نہیں، حتیٰ کہ بنی اسرائیل کی غالب اکثریت نے موسیٰ علیہ السلام کے حکم پر ارض مقدس (شام) کے حصول کے لیے جہاد پر نکلنے سے بھی صاف انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ جا تو اور تیرا رب لڑو، ہم تو یہیں بیٹھے ہیں۔ دیکھیے سورۂ مائدہ (۲۴) پھر موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان پر بہت سے دور آئے، کبھی غالب رہے، مثلاً یوشع بن نون علیہ السلام کا دور، داؤدو سلیمان علیھما السلام کا دور، کبھی مغلوب رہے، پھر آہستہ آہستہ انھوں نے اللہ کی کتاب میں ایسا اختلاف کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق بہتر (۷۲) گروہوں میں بٹ گئے۔ انھوں نے اپنی خواہشات کے مطابق کتاب اللہ کے معانی میں تحریف کی، غلط تاویلیں کیں، معانی بدلے، پھر الفاظ میں بھی تحریف کر دی، جیسا کہ فرمایا : ﴿ يُحَرِّفُوْنَ الْكَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِهٖ ﴾ [ المائدۃ : ۱۳ ] ’’ وہ کلام کو اس کی جگہوں سے پھیر دیتے ہیں۔‘‘ پھر اپنے احبار و رہبان (علماء و درویش) کو اللہ تعالیٰ کی کرسی پر بٹھا دیا۔ ان کی فقہ اور ان کے اقوال و فتاویٰ کو یہ درجہ دیا کہ وہ حرام کو حلال کہتے تو حلال سمجھ لیتے، حلال کو حرام کہہ دیتے تو حرام سمجھ لیتے، فرمایا : ﴿ اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ وَ الْمَسِيْحَ ابْنَ مَرْيَمَ﴾ [ التوبۃ : ۳۱ ] ’’انھوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا اور مسیح ابن مریم کو بھی۔‘‘ ان کے دنیا پرست علماء اللہ کی کتاب لوگوں کو سناتے ہوئے زبانوں کو ایسا پیچ دیتے کہ لوگ سمجھیں یہ اللہ ہی کی کتاب سنا رہے ہیں، حالانکہ وہ اللہ کی کتاب نہ ہوتی، پھر صاف دعویٰ کر دیتے کہ یہ اللہ کی طرف سے شرع کا حکم ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہ ہوتا، فرمایا : ﴿ وَ اِنَّ مِنْهُمْ لَفَرِيْقًا يَّلْوٗنَ اَلْسِنَتَهُمْ بِالْكِتٰبِ لِتَحْسَبُوْهُ مِنَ الْكِتٰبِ وَ مَا هُوَ مِنَ الْكِتٰبِ وَ يَقُوْلُوْنَ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ مَا هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ وَ يَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ آل عمران : ۷۸ ] ’’اور بے شک ان میں سے یقیناً کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب (پڑھنے) کے ساتھ اپنی زبانیں مروڑتے ہیں، تاکہ تم اسے کتاب میں سے سمجھو، حالانکہ وہ کتاب میں سے نہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، حالانکہ وہ اللہ کی طرف سے نہیں اور اللہ پر جھوٹ کہتے ہیں، حالانکہ وہ جانتے ہیں۔‘‘ پھر کچھ ایسے بدنصیب تھے جو اپنے ہاتھوں سے فتوے لکھ کر کہتے یہ اللہ کا حکم ہے، حالانکہ وہ سب کچھ انھوں نے اپنی کسی دنیوی خواہش کو پورا کرنے کے لیے لکھا ہوتا، اللہ کا حکم ہر گز نہ ہوتا اور جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھ دیتے، فرمایا : ﴿ فَوَيْلٌ لِّلَّذِيْنَ يَكْتُبُوْنَ الْكِتٰبَ بِاَيْدِيْهِمْ ثُمَّ يَقُوْلُوْنَ هٰذَا مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ لِيَشْتَرُوْا بِهٖ ثَمَنًا قَلِيْلًا فَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا كَتَبَتْ اَيْدِيْهِمْ وَ وَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۷۹ ] ’’پس ان لوگوں کے لیے بڑی ہلاکت ہے جو اپنے ہاتھوں سے کتاب لکھتے ہیں، پھر کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے پاس سے ہے، تاکہ اس کے ساتھ تھوڑی قیمت حاصل کریں۔ پس ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو ان کے ہاتھوں نے لکھا اور ان کے لیے بڑی ہلاکت اس کی وجہ سے ہے جو وہ کماتے ہیں۔‘‘ ہاں کچھ لوگ صراط مستقیم پر قائم رہے۔ یہ وہ تھے جو موسیٰ علیہ السلام کی کتاب اور سنت پر کسی تبدیلی یا تحریف کے بغیر قائم رہے۔ یہ نجات پانے والے تھے، مگر ان کے بہت سے لوگ اللہ کے احکام کے نافرمان ہو گئے اور اوپر مذکور ہیرا پھیریاں کرنے والے بن گئے، یا ایسی ہیرا پھیریاں کرنے والوں کے پیروکار بن گئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُوْنَ ﴾ [ المائدۃ : ۶۶ ] ’’ان میں سے ایک جماعت درمیانے راستے والی ہے اور ان میں سے بہت سے لوگ، برا ہے جو کر رہے ہیں۔‘‘ اس وقت یہ سارا نقشہ آنکھوں سے دیکھنا چاہیں تو ہماری امت مسلمہ میں دیکھ سکتے ہیں۔ 2۔ اوپر اہل سعادت اور اہل شقاوت کا حال بیان کرنے کے بعد آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی ہے کہ اگر آج یہ لوگ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کے بارے میں طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں تو آپ کبیدہ خاطر نہ ہوں، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، اس سے پہلے تورات کے ساتھ بھی لوگ یہی معاملہ کر چکے ہیں۔ 3۔ وَ لَوْ لَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ ....: موسیٰ علیہ السلام سے پہلے جہاد کا حکم نہ تھا، اس لیے رسول کی نافرمانی پر آسمان سے عذاب اتر آتا تھا۔ فرعون کے غرق ہونے کے بعد جہاد کا حکم ہوا، اب یا تو کفار کو مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب دیا جائے گا، جیسے فرمایا : ﴿قَاتِلُوْهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللّٰهُ بِاَيْدِيْكُمْ ﴾ [ التوبۃ : ۱۴ ] ’’ان سے لڑو، اللہ انھیں تمھارے ہاتھوں سے عذاب دے گا۔‘‘ چنانچہ یوشع بن نون، طالوت، داؤد اور سلیمان علیھم السلام وغیرہم کے جہاد اس بات کی دلیل ہیں۔ اگر مسلمانوں کے ہاتھوں عذاب نہ ہوا تو پھرآخرت کو ہو گا۔ اگر یہ بات طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان پر پہلی قوموں کی طرح عذاب آ چکا ہوتا۔ ہاں محدود پیمانے پر اللہ تعالیٰ کی سزا کا تازیانہ اب بھی برس سکتا ہے، جیسا کہ ’’اصحاب سبت‘‘ پر برسا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ہماری امت میں بھی ایسے واقعات پیش آئیں گے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’اگر یہ بات نہ ہوتی کہ دنیا میں سچ اور جھوٹ صاف نہ ہو۔‘‘ ( موضح) 4۔ وَ اِنَّهُمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ : بعض مفسرین نے اس کی تفسیر کی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کی قوم تورات کے بارے میں ایک بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہے، نہ اسے اس کے سچا ہونے کا یقین ہے نہ جھوٹا ہونے کا اور حق کا انکار کرنے والوں کا یہی حال ہوتا ہے کہ ان کا دل اسے سچا مانتا ہے، مگر دنیاوی خواہشات اسے ماننے کی اجازت نہیں دیتیں، اسی تذبذب میں کفر ہی پر دنیا سے گزر جاتے ہیں۔ بعض نے یہ تفسیر کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ایمان نہ لانے والے قرآن کے متعلق بے چین رکھنے والے شک میں مبتلا ہیں۔ مگر پہلی تفسیر زیادہ درست معلوم ہوتی ہے، کیونکہ ذکر موسیٰ علیہ السلام ، تورات اور ان کی قوم کا ہو رہا ہے۔ (واللہ اعلم)