فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هَٰؤُلَاءِ ۚ مَا يَعْبُدُونَ إِلَّا كَمَا يَعْبُدُ آبَاؤُهُم مِّن قَبْلُ ۚ وَإِنَّا لَمُوَفُّوهُمْ نَصِيبَهُمْ غَيْرَ مَنقُوصٍ
اس لئے آپ ان چیزوں سے شک و شبہ میں نہ رہیں جنہیں یہ لوگ پوج رہے ہیں، ان کی پوجا تو اس طرح ہے جس طرح ان کے باپ دادوں کی اس سے پہلے تھی۔ ہم ان سب کو ان کا پورا پورا حصہ بغیر کسی کمی کے دینے والے ہیں (١)
1۔ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّمَّا يَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِ: یعنی ان کے معبودوں کے باطل ہونے یا نفع نقصان کا مالک نہ ہونے میں کسی قسم کا شک نہ کر۔ ’’مِمَّا يَعْبُدُ هٰۤؤُلَآءِ ‘‘ ( جن کی یہ لوگ عبادت کرتے ہیں) میں ’’یہ لوگ‘‘ سے مراد مشرکین قریش ہیں۔ ابن عاشور نے لکھا ہے کہ میں نے قرآن کی اس اصطلاح کی جستجو کی تو تقریباً گیارہ مقامات میں ایسا ہی پایا۔ یہ بات میرے دل میں اللہ کی طرف سے ڈالی گئی ہے اور میں نے آیت : ﴿ وَ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِيْدًا﴾ [ النساء : ۴۱ ] کی تفسیر میں اس کی وضاحت کی ہے۔ [ التحریر و التنویر ] یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کا کوئی شک تھا جس سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہا ہے؟ جو اب اس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: ﴿ وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ﴾ [ ہود: ۱۱۴ ] ’’نماز قائم کر۔‘‘ اسی طرح فرمایا : ﴿ يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِيْنَ وَ الْمُنٰفِقِيْنَ ﴾ [ الأحزاب : ۱ ] ’’اے نبی! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کی اطاعت نہ کر۔‘‘ تو کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نماز قائم نہیں کرتے تھے؟ یا کیا آپ اس سے پہلے اللہ سے نہیں ڈرتے تھے؟ اور کیا آپ کفار و منافقین کی اطاعت کیا کرتے تھے؟ نہیں، ہر گز نہیں، اس قسم کے احکام جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مخلص اہل ایمان پہلے ہی کار بند ہوں، نازل کرنے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور پہلے سے عمل کرنے والے ہمیشہ ان پر کاربند رہیں اور استقامت اختیار کریں اور دوسرے تمام انسان بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے واسطے سے اپنے آپ کو مخاطب سمجھ کر ان احکام پر عمل کریں کہ جب نبی کو یہ حکم ہے تو ہماری کیا اوقات ہے کہ ہم اس پر عمل نہ کریں۔ 2۔ مَا يَعْبُدُوْنَ اِلَّا كَمَا يَعْبُدُ اٰبَآؤُهُمْ مِّنْ قَبْلُ:’’ اٰبَآؤُهُمْ ‘‘ سے مراد عادوثمود ہیں، کیونکہ عدنانی عربوں کی ماں بنوجرہم سے تھی جو اسماعیل علیہ السلام کی بیوی تھی۔ بنو جرہم ثمود سے تھے اور قریش کی ماں بنو خزاعہ سے تھی، جو قُصی کی بیوی تھی اور عرب میں بت پرستی عمرو بن لحی نے شروع کی تھی جو خزاعی تھا۔ (ابن عاشور) یعنی ان کی غیر اللہ کی پرستش کی بنیاد سوائے باپ دادا کی اندھی تقلید کے اور کچھ نہیں ہے۔ (ابن کثیر) آبا و اجداد کی غیر اللہ کی عبادت کیا تھی؟ یہی کہ وہ اپنے بزرگوں یا ان کے بتوں یا قبروں کو مصیبت کے وقت پکارتے تھے، انھیں اللہ کا بیٹا یا جز یا عین قرار دیتے تھے۔ اسی طرح عبادت میں ان کے نام کی نذر و نیاز ماننا، اللہ کے حصے کے ساتھ جانوروں اور کھیتیوں میں ان کا حصہ رکھنا، ان کو اللہ کی صفات، مثلاً علم غیب کا مالک، دور سے فریاد سننے اور مدد کرنے والا سمجھنا سبھی شامل ہیں۔ ہر زمانے کے مشرک ایک ہی طرح کے ہوتے ہیں : ﴿ بَلْ قَالُوْا مِثْلَ مَا قَالَ الْاَوَّلُوْنَ ﴾ [ المؤمنون : ۸۱ ] ’’بلکہ انھوں نے کہا جیسے پہلوں نے کہا تھا۔‘‘ اور ان کے پاس تقلیدِ آباء کے سوا کوئی دلیل نہیں ہوتی اور ان پر وہی محاورہ صادق آتا ہے کہ ’’مَا أَشْبَهَ اللَّيْلَةَ بِالْبَارِحَةِ ‘‘ ’’آج کی رات کل کی رات کے کس قدر مشابہ ہے۔‘‘ 3۔ وَ اِنَّا لَمُوَفُّوْهُمْ نَصِيْبَهُمْ غَيْرَ مَنْقُوْصٍ : انھیں ان کا حصہ پورا پورا دینے سے مراد ایک تو یہ ہے کہ کسی شخص کی تقدیر میں دنیا کا جو رزق اور آسائشیں لکھی گئی ہیں، وہ مسلمان ہو یا کافر اسے ملیں گی، کافروں کو بھی ان کا حصہ پورا ملے گا۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۲۰) دوسری یہ کہ ان کی نیکیاں جو انھوں نے دنیا میں کی ہیں ان کا پورا بدلہ ہم انھیں دنیا ہی میں دے دیں گے۔ دیکھیے سورۂ احقاف (۲۰) اور تیسری یہ کہ ہم ان کی غیر اللہ کی عبادت اور شرک کا پورا پورا بدلہ دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن ضرور دینے والے ہیں۔ یہاں یہ آخری معنی زیادہ مناسب ہے، کیونکہ ان لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے پہلی قوموں کی طرح دنیا میں آسمانی عذاب نہیں دیا گیا، جس سے ان کا نام و نشان مٹ جاتا۔