إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْآخِرَةِ ۚ ذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوعٌ لَّهُ النَّاسُ وَذَٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُودٌ
یقیناً اس میں (١) ان لوگوں کے لئے نشان عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں۔ وہ دن جس میں سب لوگ جمع کئے جائیں گے اور وہ، وہ دن ہے جس میں سب حاضر کئے جائیں گے (٢)۔
1۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لِّمَنْ خَافَ عَذَابَ الْاٰخِرَةِ: یعنی ان آیات و واقعات سے وہی عبرت حاصل کرے گا جس کا آخرت پر ایمان ہے، مگر جس کا آخرت پر ایمان نہیں وہ ان تمام واقعات کی کوئی نہ کوئی سائنسی توجیہ کرے گا کہ زمین و آسمان کے تغیرات کی وجہ سے ایسا ہوا، ظلم یا عدل سے اس کا کیا تعلق؟ 2۔ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّجْمُوْعٌ لَّهُ النَّاسُ : یعنی وہ قیامت کا دن ایسا ہے جس کے لیے تمام لوگ جمع کیے ہوئے ہوں گے۔ زمخشری نے فرمایا کہ فعل مجہول ’’يُجْمَعُ لَهُ‘‘ (جمع کیے جائیں گے) کے بجائے اسم مفعول ’’مَّجْمُوْعٌ لَّهُ ‘‘ (جمع کیے ہوئے ہوں گے) اس لیے استعمال فرمایا کہ اسم میں دوام اور ہمیشگی پائی جاتی ہے جب کہ فعل میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ 3۔ وَ ذٰلِكَ يَوْمٌ مَّشْهُوْدٌ: یعنی اس میں سب لوگ حاضر کیے ہوئے ہوں گے، کوئی چھپ سکے گا نہ ادھر ادھر ہو سکے گا۔ ایک معنی یہ ہے کہ اس دن ہر نیکی یا بدی کی شہادت موجود ہو گی اور پیش بھی کی جائے گی۔ یہ بھی مراد ہے کہ اس دن پہلے، پچھلے انسان اور جن سب حاضر ہوں گے، فرشتے بھی اور خود ذات الٰہی بھی فیصلے کے لیے تشریف لائیں گے، فرمایا : ﴿ وَ جَآءَ رَبُّكَ وَ الْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا ﴾ [الفجر : ۲۲ ] ’’اور تیرا رب آئے گا اور فرشتے جو صف در صف ہوں گے۔‘‘