وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مُوسَىٰ بِآيَاتِنَا وَسُلْطَانٍ مُّبِينٍ
اور یقیناً ہم نے ہی موسیٰ کو اپنی آیات اور روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا تھا (١)
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰيٰتِنَا وَ سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ : اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف اپنی جو آیات اور ’’سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ (واضح دلیل) دے کر بھیجا تھا، ان سے کیا مراد ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے نو آیات بینات دی تھیں (دیکھیے بنی اسرائیل : ۱۰۱) جو وقتاً فوقتاً ظاہر ہوئیں : 1۔عصائے موسیٰ 2۔ یدِ بیضا 3۔ سنین (قحط سالیاں) 4۔ نقص من الثمرات 5۔ طوفان 6۔ جراد 7۔ قمل 8۔ضفادع 9۔ دَم انھی کو ’’سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ کہا گیا ہے۔ واؤ ہمیشہ مغایرت کے لیے نہیں ہوتی، جیسا کہ سورۂ عصر میں فرمایا : ﴿ اِلَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ﴾ اس میں ہر بعد والی چیز اپنے سے پہلے والی تمام چیزوں میں داخل اور اس کا حصہ ہے۔ ایک جواب یہ ہے کہ ’’سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ سے مراد عصائے موسیٰ اور ید بیضا ہیں، جو سب سے پہلے موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کے سامنے اپنی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیے۔ ان کی خصوصیت کے پیش نظر انھیں علیحدہ بھی ذکر فرمایا، حالانکہ یہ آیات میں داخل تھے اور ایک جواب یہ کہ ’’سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا وہ پیغام ہے جو موسیٰ اور ہارون علیھما السلام فرعون کے پاس لے کر گئے اور وہ عقلی اور فطری دلائل ہیں جو لاٹھی پھینکنے سے پہلے موسیٰ علیہ السلام نے فرعون سے بحث کے دوران پیش فرمائے اور وہ ان دلائل سے لاجواب ہو کر قید کی دھمکی دینے لگا اور معجزے کا مطالبہ کرنے لگا۔ دیکھیے سورۂ طٰہٰ (۴۷ تا ۵۵) اور شعراء (۱۵ تا ۲۹) یہ تینوں تفسیریں صحیح ہیں۔ بعض حضرات نے ’’بِاٰيٰتِنَا ‘‘ سے مراد نو معجزے اور ’’سُلْطٰنٍ مُّبِيْنٍ ‘‘ سے مراد تورات بیان کی ہے، مگر تورات تو فرعون کے غرق ہونے کے بعد نازل ہوئی، اس لیے یہ تفسیر صحیح نہیں۔