وَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَأَخَذَتِ الَّذِينَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَأَصْبَحُوا فِي دِيَارِهِمْ جَاثِمِينَ
جب ہمارا حکم (عذاب) آپہنچا ہم نے شعیب کو اور ان کے ساتھ (تمام) مومنوں کو اپنی خاص رحمت سے نجات بخشی اور ظالموں کو سخت چنگھاڑ کے عذاب نے دھر دبوچا (١) جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندے پڑے ہوئے ہوگئے۔
1۔ وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّيْنَا شُعَيْبًا ....: یہ اللہ تعالیٰ کے ہر قوم پر آنے والے عذاب کی عجیب صفت ہے کہ اس نے اہل ایمان کو کچھ نقصان نہیں پہنچایا، نہ آندھی نے، نہ چیخ نے اور نہ زلزلے نے۔ صرف کفار اور ظالم مشرک ہی اس سے برباد ہوئے۔ دیکھیے اسی سورت کی آیت (۵۷) کی تفسیر۔ 2۔ اللہ کے حکم سے آنے والے اس عذاب کو سورۂ اعراف (۹۱) اور عنکبوت (۳۷) میں ’’الرَّجْفَةُ “ یعنی زلزلہ فرمایا، یہاں ’’الصَّيْحَةُ ‘‘ یعنی چیخ فرمایا اور سورۂ شعراء (۱۸۹) میں ’’عَذَابُ يَوْمِ الظُّلَّةِ ‘‘ سائبان کے دن والا عذاب فرمایا۔ اس لیے زیادہ واضح بات یہی نظر آتی ہے کہ پہلے ’’الصَّيْحَةُ ‘‘ چنگھاڑ یا سخت چیخ بلند ہوئی، جب وہ حد سے گزری تو شدید زلزلہ آگیا جس نے پہاڑوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا اور اس آواز سے کفار کے دل اور جگر پھٹ گئے اور جو جہاں تھا وہیں پڑا رہ گیا۔ زلزلے نے باقی کسر پوری کر دی اور تمام کفار کا نام و نشان اس طرح مٹا جیسے وہ یہاں کبھی رہے ہی نہ تھے۔ آج بھی مدین کے علاقے میں سیکڑوں میل تک جو پہاڑ پائے جاتے ہیں ان پر زلزلے کے آثار واضح ہیں۔ تمام پہاڑ اس طرح پھٹے ہوئے ہیں جیسے کسی زبردست زلزلے نے انھیں کھیل کھیل کر دیا ہو۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ تمام عذاب ان پر آئے مگر آیات کے سیاق میں ہر مقام کے مطابق جو عذاب تھا اس کا ذکر ہوا۔ سورۂ اعراف (۸۸) میں کفار کا قول ذکر ہوا تھا : ﴿ لَنُخْرِجَنَّكَ يٰشُعَيْبُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا﴾ ’’اے شعیب! ہم تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے۔‘‘ وہاں ’’الرَّجْفَةُ‘‘ کا ذکر ہے کہ یہ ہے وہ بستی جہاں سے تم نبی کو نکالنا چاہتے تھے۔ یہاں سورۂ ہود میں جب انھوں نے پیغمبر کی گستاخی کی تو اس کی مناسبت سے چیخ کا ذکر فرمایا اور سورۂ شعراء میں ان کا مطالبہ تھا کہ ہم پر آسمان کا ٹکڑا گرا دے تو وہاں سائبان والے عذاب کا ذکر فرمایا۔ 3۔ اَلَا بُعْدًا لِّمَدْيَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ : یعنی قوم شعیب پر ویسی ہی ہلاکت مسلط ہوئی جیسی ثمود پر ہوئی، ان کے علاقے بھی ایک دوسرے کے قریب تھے اور کفر و سرکشی میں بھی دونوں قومیں ایک جیسی تھیں اور دونوں عرب تھے۔