وَيَا قَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِي أَن يُصِيبَكُم مِّثْلُ مَا أَصَابَ قَوْمَ نُوحٍ أَوْ قَوْمَ هُودٍ أَوْ قَوْمَ صَالِحٍ ۚ وَمَا قَوْمُ لُوطٍ مِّنكُم بِبَعِيدٍ
اور اے میری قوم (کے لوگو!) کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کو میری مخالفت ان عذابوں کا مستحق بنا دے جو قوم نوح اور قوم ہود اور قوم صالح کو پہنچے ہیں۔ اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں (١)
1۔ وَ يٰقَوْمِ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِيْ ....: ’’شِقَاقٌ شِقٌّ‘‘ سے باب مفاعلہ کا مصدر ہے، بمعنی جانب، یعنی دونوں ایک دوسرے کے مخالف سمت میں آمنے سامنے ہو جائیں، یعنی صاف مخالفت اور مقابلے پر اتر آنا۔ ’’ لَا يَجْرِمَنَّكُمْ ‘‘ تمھیں آمادہ نہ کر دے، تمھیں ابھار نہ دے، تمھیں اس بات کا مجرم نہ بنا دے، تمھارے لیے اس کا باعث نہ بن جائے، یہ تمام معانی ہو سکتے ہیں۔ 2۔ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِيْدٍ : یعنی اگر تمھیں قوم نوح کے غرق ہونے، قوم ہود کے آندھی کے ساتھ ہلاک ہونے اور قوم صالح کے چیخ اور زلزلے سے نیست و نابود ہونے سے عبرت نہیں ہوئی، کیونکہ ان کا علاقہ یا زمانہ تم سے دور تھا، تو لوط علیہ السلام کی قوم تو تم سے کچھ دور نہیں، نہ اسے زیادہ وقت گزرا ہے اور نہ ان کا علاقہ تمھارے علاقے سے کچھ دور ہے۔ واضح رہے کہ جغرافیائی اعتبار سے بھی مدین کا علاقہ اس زمین سے متصل واقع تھا جہاں لوط علیہ السلام کی قوم بستی تھی۔