قَالَ لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَىٰ رُكْنٍ شَدِيدٍ
لوط نے کہا کاش مجھ میں تم سے مقابلہ کرنے کی قوت ہوتی یا میں کسی زبردست کا اسرا پکڑ پاتا (١)۔
قَالَ لَوْ اَنَّ لِيْ بِكُمْ قُوَّةً ....: لوط علیہ السلام اس قوم میں ایک طرح سے اجنبی تھے، اللہ تعالیٰ نے انھیں اہل سدوم کی اصلاح کے لیے مقرر فرمایا تھا۔ اس وجہ سے انھوں نے اس تمنا کا اظہار کیا کہ کاش! مجھ میں تمھارے مقابلے کی قوت ہوتی، یا میں کسی مضبوط سہارے کی پناہ لیتا، یعنی میرا خاندان یہاں ہوتا تو میں تم سے نمٹ لیتا۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( يَرْحَمُ اللّٰهُ لُوْطًا لَقَدْ كَانَ يَأْوِيْ إِلٰی رُكْنٍ شَدِيْدٍ )) [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب قولہ عزو جل : ﴿ و نبئھم عن ضیف إبراہیم ﴾ : ۳۳۷۲ ] ’’اللہ تعالیٰ لوط پر رحم کرے، یقیناً وہ بہت مضبوط سہارے کی پناہ رکھتے تھے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا سہارا رکھتے تھے جو سب سے مضبوط ہے اور اس وقت ان کے پاس فرشتوں کی شکل میں بھی مضبوط سہارا موجود تھا، اگرچہ انھیں معلوم نہ تھا۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’اَلْفِصَلُ فِي الْمِلَلِ‘‘ میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں لوط علیہ السلام کی شان میں کمی کی کوئی بات نہیں، کیونکہ اسباب کا مہیا کرنا یا ان کی خواہش کرنا اللہ تعالیٰ پر توکل کے خلاف نہیں ہے۔ لوط علیہ السلام یقیناً اللہ تعالیٰ کو اپنا سہارا سمجھتے تھے مگر اس وقت وہ ساتھی مہیا ہونے کی صورت میں فوری طور پر اس خبیث قوم کا راستہ قوتِ بازو کے ساتھ روکنے کے خواہش مند تھے۔ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی لوگوں اور قبیلوں سے کہا کہ کون میری مدد کرتا اور مجھے جگہ دیتا ہے کہ میں اپنے رب کا پیغام پہنچاؤں۔ آخر کار انصار مدینہ نے آپ کی دعوت پر لبیک کہا اور اپنی جان و مال اور اولاد کی طرح آپ کی حفاظت اور آپ کا دفاع کیا اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِيّٖنَ مَنْ اَنْصَارِيْۤ اِلَى اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ ﴾ [ الصف : ۱۴ ] ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے مددگار بن جاؤ، جس طرح عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا اللہ کی طرف میرے مددگار کون ہیں؟ حواریوں نے کہا ہم اللہ کے مددگار ہیں۔‘‘ اس لیے دنیاوی اسباب مہیا ہونے کی کوشش و خواہش جائز بلکہ مستحب ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَمَا بَعَثَ اللّٰهُ بَعْدَهُ مِنْ نَبِيٍّ اِلَّا فِيْ ثَرْوَةٍ مِنْ قَوْمِهِ )) [ السلسلۃ الصحیحۃ :1؍152، ح : ۱۶۱۷ ] ’’پھر لوط علیہ السلام کے بعد اللہ نے جو نبی بھی بھیجا وہ اس کی قوم کے کثیر لوگوں میں سے بھیجا۔‘‘