وَلِكُلٍّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِّيهَا ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِيعًا ۚ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ہر شخص ایک نہ ایک طرف متوجہ ہو رہا ہے (١) تم اپنی نیکیوں کی طرف دوڑو۔ جہاں کہیں بھی تم ہو گے، اللہ تمہیں لے آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
1۔ وِجْهَةٌ: وہ جگہ جس طرف منہ کیا جائے۔ اس کا وزن ”فِعْلَةٌ“ ہے، جو اس ”فِعْلٌ“ کا مؤنث ہے جو بمعنی مفعول ہے، جیسے ”ذِبْحٌ“ بمعنی ”مَذْبُوْحٌ“ (ابن عاشور) 2۔اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام کا قبلہ اگرچہ کعبہ تھا، مگر بعد میں ہر ایک نے اپنی اپنی مرضی سے کسی نہ کسی سمت کو اپنا قبلہ مقرر کر لیا۔ چنانچہ یہود نے بیت المقدس کے صخرہ کو قبلہ قرار دے لیا اور نصاریٰ نے بیت المقدس کی مشرقی جانب کو۔ اب تمھارے لیے کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا گیا ہے، اس لیے ان لوگوں سے اس بحث کا کوئی خاص فائدہ نہیں کہ کون سی سمت افضل ہے۔ اصل چیز نیکیوں میں سبقت ہے، اس کا اہتمام کرو، کیونکہ تم جہاں بھی ہو گے تمھیں اللہ کے حضور پیش ہونا پڑے گا، جیسا کہ فرمایا : ’’نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو اور لیکن اصل نیکی اس کی ہے جو اللہ اور یوم آخرت اور فرشتوں اور کتاب اور نبیوں پر ایمان لائے اور مال دے اس کی محبت کے باوجود قرابت والوں اور یتیموں اور مسکینوں اور مسافر اور مانگنے والوں کو اور گردنیں چھڑانے میں ۔ اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور جو اپنا عہد پورا کرنے والے ہیں جب عہد کریں اور خصوصاً جو تنگ دستی اور تکلیف میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والے ہیں ، یہی لوگ ہیں جنھوں نے سچ کہا اور یہی بچنے والے ہیں ۔‘‘ [ البقرۃ : ۱۷۷ ] نیکیوں میں سبقت میں نماز کو وقت پر ادا کرنا، پہلی صف میں پہلی تکبیر کے ساتھ شامل ہونا، اسی طرح جہاد کی اولین صفوں میں پہنچنا بھی شامل ہے۔