سورة ھود - آیت 73

قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ ۖ رَحْمَتُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ ۚ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

فرشتوں نے کہا کیا تو اللہ کی قدرت سے تعجب کر رہی (١) ہے؟ تم پر اے اس گھر کے لوگوں اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں (٢) بیشک اللہ حمد و ثنا کا سزاوار اور بڑی شان والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

قَالُوْۤا اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ: یعنی وہ تو ماں باپ کے بغیر بھی پیدا کر سکتا ہے، پھر بوڑھی عورت کو بچہ عطا کرنا اسے کیا مشکل ہے۔ جب اللہ کے امر کے سامنے کوئی چیز ناممکن نہیں تو تعجب کیسا۔ پھر اس گھر میں شروع سے اللہ کی رحمت وبرکت کے جو معجزے ظاہر ہوتے رہے ہیں، مثلاً آگ کا گلزار ہونا، اسماعیل علیہ السلام کا ذبح سے محفوظ رہنا، مصر کے اس ظالم جبار سے سارہ علیھا السلام کی عصمت کا محفوظ رہنا وغیرہ، ان کے بعد تو اللہ کے حکم سے کسی بھی ناممکن کام کے ہو جانے پر تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ:’’اَهْلَ الْبَيْتِ ‘‘ سے پہلے حرف ندا ’’يَا ‘‘ مقدر ہے، اس لیے یہ منصوب ہے، یعنی ’’اے گھر والو!‘‘ پہلے ’’سَلٰمًا ‘‘ کہا تھا، اب ’’ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ ‘‘ کے ساتھ وہ مکمل ہو گیا، اس سے زائد الفاظ ثابت نہیں ہیں۔ اس وقت فرشتوں کی مخاطب صرف اکیلی سارہ علیھا السلام تھیں، ان کے لیے فرشتوں نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں، ان میں سے دو الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں، ایک تو یہ کہ اکیلی عورت کو ’’عَلَيْكُمْ ‘‘ جمع مذکر حاضر کے لفظ سے خطاب کیا ہے، حالانکہ وہ مؤنث تھیں۔ دوسرا انھیں ’’اَهْلَ الْبَيْتِ ‘‘ کہہ کر خطاب کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ آدمی کے اہل ِبیت (گھر والے) اس کی بیوی ہوتی ہے۔ دوسرا یہ کہ سلام اور رحمت وبرکت کہتے وقت عورتوں کو بھی مذکر کے صیغے سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ یہ آیت فیصلہ کن ہے کہ سورۂ احزاب کی آیت : ﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ﴾ [ الأحزاب : ۳۳ ] ’’اللہ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے گندگی دور کر دے اے گھر والو! اور تمھیں پاک کر دے خوب پاک کرنا۔‘‘ اس آیت میں اہل ِ بیت کا ذکر کرتے ہوئے پہلے بھی اور بعد میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کا ذکر ہے، تو یہاں اس آیت میں بھی ’’عَنْكُمُ ‘‘ اور ’’اَهْلَ الْبَيْتِ ‘‘ اور ’’يُطَهِّرَكُمْ ‘‘ تینوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں مراد ہیں۔ اس کی نفی کرنے والے ایک واضح اور ثابت شدہ حقیقت کی نفی کر رہے ہیں، جس کی وجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبوب ازواج مطہرات سے بغض و عناد کے سوا کچھ نہیں اور جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیاروں سے بغض رکھے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے کیسے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔