سورة ھود - آیت 61

وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۚ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ هُوَ أَنشَأَكُم مِّنَ الْأَرْضِ وَاسْتَعْمَرَكُمْ فِيهَا فَاسْتَغْفِرُوهُ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ ۚ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُّجِيبٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور قوم ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو بھیجا (١) اس نے کہا کہ اے میری قوم تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں (٢) اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا (٣) اور اسی نے اس زمین میں تمہیں بسایا ہے (٤) پس تم اس سے معافی طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو۔ بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًا : قوم ثمود مقام حجر (حاء کے کسرہ کے ساتھ) میں رہتے تھے۔ یہ جگہ حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ تک پھیلی ہوئی ہے۔ آج کل یہ علاقہ مدینہ اور تبوک کے درمیان ہے، جہاں ابھی تک ان لوگوں کے پہاڑوں کے اندر تراش کر بنائے ہوئے مکانات، جن میں وہ رہتے تھے، موجود ہیں اور یہ علاقہ مدائن صالح کہلاتا ہے۔ صالح علیہ السلام کا قبیلہ عرب قبیلہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک (شام) کی طرف جاتے ہوئے یہاں سے گزرے تھے۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (وادی) حجر میں تھے تو فرمایا : (( لاَ تَدْخُلُوْا عَلٰی هٰؤُلاَءِ الْقَوْمِ الْمُعَذَّبِيْنَ أَصْحَابِ الْحِجْرِ إِلاَّ أَنْ تَكُوْنُوْا بَاكِيْنَ ، فَإِنْ لَّمْ تَكُوْنُوْا بَاكِيْنَ فَلاَ تَدْخُلُوْا عَلَيْهِمْ أَنْ يُّصِيْبَكُمْ مَا أَصَابَهُمْ )) ’’ان عذاب دیے ہوئے لوگوں، یعنی اصحاب حجر پر مت داخل ہو، مگر ایسی حالت میں کہ تم رونے والے ہو، اگر تمھیں رونا نہ آئے تو ان پر داخل نہ ہونا، کہیں تمھیں بھی اس جیسا عذاب نہ آ پہنچے جو ان کو پہنچا تھا۔‘‘ [ مسند أحمد :2؍58، ح : ۵۲۲۴، و صححہ شعیب الأرنؤوط و الألبانی ] قوم ثمود کا قصہ سورۂ اعراف، شعراء، نحل اور قمر وغیرہ میں بھی مذکور ہے۔ ’’اَخَاهُمْ صٰلِحًا ‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسی قبیلے کے فرد تھے، اس لیے ان کے خیر خواہ، ان کے مزاجوں کو سمجھنے والے اور ان میں مدت تک رہنے والے تھے۔ قَالَ يٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ ....: ان کی دعوت بھی وہی دعوتِ توحید تھی جو تمام انبیاء کی دعوت تھی۔ هُوَ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ....: ’’اِنْشَاءٌ‘‘ کا معنی نئی چیز بنانا ہے۔ ’’اسْتَعْمَرَكُمْ‘‘ ’’عَمَرَ يَعْمُرُ‘‘ کسی جگہ کو آباد کرنا، سورۂ روم میں فرمایا : ﴿ وَ عَمَرُوْهَاۤ اَكْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْهَا ﴾ [ الروم : ۹ ] ’’اور انھوں نے اسے آباد کیا اس سے زیادہ جو انھوں نے اسے آباد کیا۔‘‘ ’’أَعْمَرَ يُعْمِرُ ‘‘ باب افعال کسی شخص کو کسی جگہ میں آباد کرنا۔ ’’اِسْتَعْمَرَ ‘‘ میں حروف زائد ہیں، یعنی کسی کو کسی جگہ میں خوب آباد کرنا۔ صالح علیہ السلام ان الفاظ کے ساتھ انھیں اللہ تعالیٰ کی توحید اور صرف اسی کے معبود برحق ہونے کی دلیل دے رہے ہیں کہ اسی نے تمھیں زمین سے پیدا کیا، زمین کو بھی اسی نے بنایا، تمھاری ضرورت کی ہر چیز زمین سے اسی نے پیدا کی، اپنی زمین پر اس نے تمھیں خوب آباد کیا، پہاڑوں کو تراشنے کی صلاحیت اور عقل عطا فرمائی، نہایت ترقی یافتہ زراعت اور اس کے اسباب، زرخیز زمین اورچشمے عطا فرمائے۔ دیکھیے سورۂ شعراء (۱۴۱ تا ۱۵۰) اب تک اس کی جو ناشکری اور اس کے ساتھ شرک کر چکے ہو اس کی معافی مانگ کر اس پر ایمان لے آؤ اور آئندہ کے لیے اس کے ساتھ کفر و شرک سے توبہ کرو۔ ساتھ ہی ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا دروازہ کھلا ہونے کی امید دلانے کے لیے رب تعالیٰ کی دو صفات بیان کیں کہ وہ ’’قَرِيْبٌ ‘‘ بھی ہے اور ’’مُجِيْبٌ ‘‘ بھی۔ کوئی اسے پکارے تو اسے کسی واسطے کی ضرورت نہیں۔ آہستہ پکارے یا بلند آواز سے، اکیلا پکارے یا مجلس میں، میرا رب قریب بھی ہے اور قبول کرنے والا بھی۔ جب اس کے سوا یہ اوصاف کسی میں بھی نہیں تو کسی اور کی عبادت کیوں؟