وَيَا قَوْمِ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ۖ إِنْ أَجْرِيَ إِلَّا عَلَى اللَّهِ ۚ وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا ۚ إِنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَلَٰكِنِّي أَرَاكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ
میری قوم والو! میں تم سے اس پر کوئی مال نہیں مانگتا (١) میرا ثواب تو صرف اللہ تعالیٰ کے ہاں ہے نہ میں ایمان داروں کو اپنے پاس سے نکال سکتا ہوں (٢) انھیں اپنے رب سے ملنا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تم لوگ جہالت کر رہے ہو (٣)۔
1۔ وَ يٰقَوْمِ لَا اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا ....: اور اے میری قوم! میں اللہ کا یہ پیغام تمھیں پہنچانے پر تم سے کسی اجرت کا مطالبہ نہیں کرتا، مبادا تم سمجھو کہ نوح نے مال کھینچنے کے لیے نبوت کا بہانہ کھڑا کر لیا۔ میری اجرت تو اللہ کے سوا کسی کے ذمے بھی نہیں اور نہ دنیا کی کسی چیز کا تم سے مطالبہ ہے۔ 2۔ وَ مَا اَنَا بِطَارِدِ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : یعنی جس طرح اللہ کی رحمت (اسلام) کے دامن میں آنے سے جب تک تم نفرت اور کراہت کرتے رہو گے، میں تمھیں زبردستی اسلام لانے پر مجبور نہیں کر سکتا، اسی طرح جیسے تم چاہتے ہو کہ جن لوگوں نے میری پیروی اختیار کی ہے، چونکہ وہ نچلے طبقے کے لوگ ہیں، اس لیے میں انھیں دھکے دے کر نکال دوں، یہ کام میں ہر گز نہیں کر سکتا۔ یہ اسی قسم کا مطالبہ تھا جو قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کرتے تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے منع فرما دیا۔ دیکھیے سورۂ انعام (۵۲)، کہف (۲۸) اور سورۂ عبس۔ 3۔ اِنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ: یعنی اگر میں ان کو ستاؤں یا اپنی مجلس سے نکال دوں تو وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا انصاف چاہیں گے، اس کا میں کیا جواب دوں گا۔ یا یہ کہ وہ لوگ تو اللہ کے ہاں عزت پا لیں گے اور اس بارگاہِ عالی میں ان کو ایمان و عمل کے باعث مقام و مرتبہ ملے گا، پھر تمھارے ان کو ذلیل سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟ یہ ان کے دوسرے اعتراض کا جواب ہے کہ اے نوح! آپ کے متبع ہمارے رذالے ہیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’کافروں نے مسلمانوں کو رذالہ ٹھہرایا اور چاہا کہ ان کو ہانک دو تو ہم تمھارے پاس بیٹھیں اور بات سنیں۔ سو فرمایا کہ دل کی بات اللہ تعالیٰ تحقیق کرے گا جب اسے ملیں گے، میں اگر مسلمانوں کو ہانکوں تو اللہ سے کون چھڑوائے مجھ کو۔ اور رذالہ ٹھہرایا اس پر کہ وہ کسب کرتے تھے۔ کسب سے بہتر کمائی نہیں، اس واسطے فرمایا کہ تم جاہل ہو۔‘‘ (موضح) 4۔ وَ لٰكِنِّيْۤ اَرٰىكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُوْنَ : یعنی تم کسی بات کو بھی صحیح طرح نہیں سمجھتے، تمھاری نظر صرف ظاہر چیزوں پر ہے اور انجام پر غور نہیں کرتے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ فلاں شخص نیچ قوم کا ہے، اس لیے اسے اپنے پاس نہ بیٹھنے دو؟ اللہ کے نزدیک اسی کو عزت ہے جو ایمان دار اور پرہیز گار ہے۔ بے ایمان اور بدکار کتنے ہی اونچے خاندان کا ہو اللہ کے نزدیک چوہڑے اور چمار سے بھی بدتر ہے۔