سورة ھود - آیت 17

أَفَمَن كَانَ عَلَىٰ بَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّهِ وَيَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ وَمِن قَبْلِهِ كِتَابُ مُوسَىٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ۚ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۚ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ۚ فَلَا تَكُ فِي مِرْيَةٍ مِّنْهُ ۚ إِنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا وہ شخص جو اپنے رب کے پاس کی دلیل پر ہو اور اس کے ساتھ اللہ کی طرف کا گواہ ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (گواہ ہو) جو پیشوا و رحمت ہے (اوروں کے برابر ہوسکتا ہے) (١) یہی لوگ ہیں جو اس پر ایمان رکھتے ہیں (٢) اور تمام فرقوں میں سے جو بھی اس کا منکر ہو اس کے آخری وعدے کی جگہ جہنم (٣) ہے پس تو اس میں کسی قسم کے شبہ میں نہ رہنا، یقیناً یہ تیرے رب کی جانب سے سراسر حق ہے، لیکن اکثر لوگ ایمان والے نہیں ہوتے (٤)۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

اَفَمَنْ كَانَ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّهٖ ....: ’’يَتْلُوْهُ ‘‘ ’’ تَلاَ يَتْلُوْ ‘‘ کا معنی ہے پیچھے آنا، مراد اس کی تائید کرنا ہے۔ اس آیت کی مفسرین نے کئی تفسیریں کی ہیں، ان میں سے دو تفسیریں زیادہ درست معلوم ہوتی ہیں۔ سب سے واضح اور درست تفسیر تو یہ ہے کہ کیا وہ شخص جو اپنے رب کی طرف سے ’’بَيِّنَةٍ ‘‘ (واضح دلیل) پر ہے، اس شخص سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے متبع مومن ہیں۔ ’’ بَيِّنَةٍ ‘‘ سے مراد نبوت کی نشانیاں اور دلائل ہیں اور ’’يَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِّنْهُ ‘‘ (اس کی طرف سے ایک گواہ اس کی تائید کر رہا ہو) میں ’’ شَاهِدٌ ‘‘ سے مراد قرآن مجید ہے جو آپ کے صدق کا شاہد ہے اور اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کی کتاب سے مراد تورات ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی شہادت دے رہی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کیا یہ رسول اور اس کے پیروکار جو اپنے رب کی طرف سے دلیل پر ہیں، ان لوگوں کی طرح ہو سکتے ہیں جن کے پاس نہ رب تعالیٰ کی طرف سے کوئی دلیل ہے، نہ کوئی شاہد اور نہ کوئی اور پہلی آسمانی کتاب جو ان کی تائید کرے۔ یہ مطلب سب سے درست اس لیے کہا گیا ہے کہ اسی سورۂ ہود میں تقریباً ہر نبی نے یہ کہا کہ میں اپنے رب کی طرف سے ایک ’’ بَيِّنَةٍ ‘‘ پر ہوں۔ دیکھیے نوح علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ وَ اٰتٰىنِيْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهٖ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ اَنُلْزِمُكُمُوْهَا وَ اَنْتُمْ لَهَا كٰرِهُوْنَ ﴾ [ ھود : ۲۸ ] ’’اے میری قوم! کیا تم نے دیکھا کہ اگر میں اپنے رب کی طرف سے ایک (بینہ) واضح دلیل پر (قائم) ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے بڑی رحمت عطا فرمائی ہو، پھر وہ تم پر مخفی رکھی گئی ہو، تو کیا ہم زبردستی اسے تم پر چپکا دیں گے، جب کہ تم اسے ناپسند کرنے والے ہو۔‘‘ صالح علیہ السلام نے کہا : ﴿ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ ﴾ [ ھود : ۶۳ ] شعیب علیہ السلام نے کہا : ﴿ يٰقَوْمِ اَرَءَيْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّيْ ﴾ [ ھود : ۸۸ ] غرض ہر پیغمبر یہ کہتا رہا کہ میں اپنے رب کی طرف سے ’’بَيِّنَةٍ ‘‘ پر ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر پیغمبر کو اس کی نبوت کی واضح نشانی دے کر بھیجتے تھے اور قرآن مجید کا معجزہ، جس کی ایک سورت کی مثال پیش نہ کی جا سکی، وہ اللہ کی طرف سے آپ کا شاہد ہے۔ اسی طرح تورات بھی آپ کے حق ہونے کی شاہد ہے۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’بَيِّنَةٍ ‘‘ سے مراد عقل سلیم اور وہ فطرت سلیمہ ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ عہد ’’اَلَسْتُ‘‘ ہے جس کا ہر شخص اپنے آپ پر شاہد بنا یا گیا ہے اور وہ ہے توحید الٰہی اور اپنے رب کی پہچان، فرمایا : ﴿ اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ﴾ [الأعراف : ۱۷۲] ’’کیا میں واقعی تمھارا رب نہیں ہوں؟‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ مَوْلُوْدٍ يُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ )) [ بخاری، الجنائز، باب ما قیل فی أولاد المشرکین : ۱۳۸۵ ] ’’ہر بچہ فطرت (اسلام) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے ماں باپ اسے یہودی بنا دیتے ہیں یا نصرانی یا مجوسی۔‘‘ یعنی کیا وہ لوگ جو فطرت سلیمہ پر قائم ہیں، عقل سلیم سے کام لیتے ہیں اور اس کے ساتھ ان کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک گواہ بھی آ چکا ہے، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا قرآن اور اس سے پہلے تورات بھی اس کی شہادت دے رہی ہے، جو رہنما بھی تھی اور رحمت بھی، تو کیا یہ لوگ ان کی طرح ہیں جن کے پاس نہ رب کی طرف سے کوئی ’’بَيِّنَةٍ ‘‘ ہے، نہ کوئی اس کی طرف سے شاہد اور نہ گزشتہ کسی آسمانی کتاب کی شہادت۔ ہر گز نہیں، ایک مومن دوسرا کافر، دونوں ایک جیسے کبھی نہیں ہو سکتے۔ اُولٰٓىِٕكَ يُؤْمِنُوْنَ بِهٖ : یعنی یہ ’’بَيِّنَةٍ ‘‘ پر قائم لوگ اس رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ وَ مَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ: اور جو اس کے ساتھ کفر کرے، خواہ وہ کسی گروہ عیسائی، یہودی، ہندو یا بدھ وغیرہ سے تعلق رکھتا ہو، اس کا ٹھکانا آگ ہے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهٖ ! لاَ يَسْمَعُ بِيْ أَحَدٌ مِّنْ هٰذِهِ الْأُمَّةِ يَهُوْدِيٌّ وَلاَ نَصْرَانِيٌّ ثُمَّ يَمُوْتُ وَلَمْ يُؤْمِنْ بِالَّذِيْ اُرْسِلْتُ بِهٖ إِلاَّ كَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ )) [ مسلم، الإیمان، باب وجوب الإیمان برسالۃ نبینا محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم ....: ۱۵۳ ، عن أبی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’قسم اس کی جس کے ہاتھ میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے! میرے بارے میں اس امت (دعوت) میں سے کوئی یہودی یا نصرانی سن لے، پھر وہ فوت ہو اور اس پر ایمان نہ لایا ہو جو مجھے دے کر بھیجا گیا ہے، تو وہ اصحاب النار سے ہو گا۔‘‘ مشرکین اور نام کے مسلمان، جو دل سے آپ کی رسالت کو نہیں مانتے، وہ بھی انھی میں شامل ہیں۔ مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۶۲) اور نساء (۱۵۰ تا ۱۵۲)۔ فَلَا تَكُ فِيْ مِرْيَةٍ مِّنْهُ: بظاہر خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے، مگر مراد ہر عاقل ہے۔ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يُؤْمِنُوْنَ : اکثر یت کا یہ حال قرآن میں متعدد بار بیان ہوا ہے، مثلاً دیکھیے سورۂ یوسف (۱۰۳)، انعام (۱۱۶) اور سبا (۲۰) دین جمہوریت اور دین اسلام کو ایک قرار دینے والے غور فرمائیں۔