أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۖ قُلْ فَأْتُوا بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ وَادْعُوا مَنِ اسْتَطَعْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کیا یہ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو اسی نے گھڑا ہے۔ جواب دیجئے کہ پھر تم بھی اسی کے مثل دس سورتیں گھڑی ہوئی لے آؤ اور اللہ کے سوا جسے چاہو اپنے ساتھ بلا بھی لو اگر تم سچے ہو (١)۔
اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ قُلْ فَاْتُوْا بِعَشْرِ سُوَرٍ ....: یعنی اگر تمھیں اس قرآن کے اللہ تعالیٰ کا کلام ہونے میں شک و شبہ ہے تو تم سب جمع ہو کر اس چیلنج کا جواب دینے کی کوشش کرو۔ واضح رہے کہ قرآن میں متعدد مرتبہ اہل عرب کو چیلنج کیا گیا ہے۔ سورۂ بنی اسرائیل (۸۸) اور سورۂ طور (۳۴) میں پورے قرآن کی مثل لانے کا چیلنج کیا گیا ہے۔ اس کے بعد یہاں سورۂ ہود میں دس سورتوں کا چیلنج کیا گیا ہے۔ پھر سورۂ یونس اور بقرہ میں ایک سورت کا۔ لیکن اہل عرب پورا قرآن یا دس سورتیں تو کیا ایک سورت بھی بنا کر پیش نہ کر سکے۔ یہ قرآن کے کلام اللہ ہونے کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ (ابن کثیر) یاد رہے کہ قرآن مجید کا معجز ہونا، یعنی اس جیسی ایک سورت کی تصنیف بھی ناممکن ہونے کی وجہ قرآن مجید کی بے شمار خوبیاں ہیں، جو مخلوق کی بساط سے باہر ہیں۔ مسلم علماء نے اس پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں، جن کا عنوان ہی ’’اعجاز القرآن‘‘ (ازباقلانی، صالح بن عبد العزیز وغیرہ) یا اس سے ملتا جلتا ہے۔ ان خوبیوں میں اس کی فصاحت و بلاغت کے ساتھ ساتھ اس کے اندازِ بیان کا اللہ کی شان کے مطابق جلال و جمال، اس کی کسی پیش گوئی یا خبر کا غلط نہ ہونا، اس کی آیات کا ایک دوسرے سے ٹکرانے سے پاک ہونا اور اس کی جامعیت وغیرہ بھی شامل ہیں۔