فَلَعَلَّكَ تَارِكٌ بَعْضَ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَضَائِقٌ بِهِ صَدْرُكَ أَن يَقُولُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ كَنزٌ أَوْ جَاءَ مَعَهُ مَلَكٌ ۚ إِنَّمَا أَنتَ نَذِيرٌ ۚ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ وَكِيلٌ
پس شاید کہ آپ اس وحی کے کسی حصے کو چھوڑ دینے والے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی جاتی ہے اور اس سے آپ کا دل تنگ ہے، صرف ان کی اس بات پر کہ اس پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترا ؟ یا اس کے ساتھ فرشتہ ہی آتا، سن لیجئے! آپ تو صرف ڈرانے والے ہی ہیں (١) اور ہر چیز کا ذمہ دار اللہ تعالیٰ ہے۔
1۔ فَلَعَلَّكَ تَارِكٌۢ بَعْضَ مَا يُوْحٰۤى اِلَيْكَ ....: کفار ہر وقت کوئی نہ کوئی معجزہ لانے کی فرمائش کرتے رہتے تھے کہ آپ پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اتارا گیا؟ چلیے آپ احد پہاڑ ہی سونے کا بنا دیجیے، یا کوئی فرشتہ ہی ساتھ لے آئیے۔ ان کی عجیب و غریب فرمائشوں کا ذکر سورۂ بنی اسرائیل (۹۰ تا ۹۳) اور سورۂ فرقان (۷،۸) میں کچھ تفصیل کے ساتھ ہے۔ ان آیات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی گئی ہے کہ ان کے شبہات، مطالبات اور طعن و تشنیع سے تنگ آ کر آپ پریشان اور غم زدہ نہ ہو جائیں، بلکہ شرک کی مذمت کے لیے اور توحید کے اثبات کے لیے جو بھی وحی آئے آپ کسی بھی کمی بیشی کے بغیر ان تک پہنچاتے رہیں۔ یہ نہ ہو کہ وحی کا وہ حصہ حذف کر دیں جس میں بتوں کی عیب جوئی اور شرک کی مذمت ہے۔ 2۔ اِنَّمَا اَنْتَ نَذِيْرٌ : یعنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے محض عذاب سے ڈرانے کے لیے بھیجا ہے، لہٰذا کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پروا کیے بغیر آپ اس فریضہ کو سرانجام دیتے رہیں۔ 3۔ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ : یعنی ان کے مطالبات کو پورا کرنا یا نہ کرنا اللہ کا کام ہے، ہر چیز اسی کے اختیار میں ہے۔ وہ اگر چاہے گا تو آپ کو ایک خزانہ کیا روئے زمین کے تمام خزانے دے دے گا اور ایک فرشتہ کیا آپ پر سیکڑوں فرشتے اتار دے گا۔ بہرحال جیسی اس کی مصلحت اور حکمت ہو گی ویسا ہی کرے گا، آپ کو ان چیزوں سے کیا غرض؟ ہر چیز کا نگران وہ خود ہے۔ آپ تو اللہ تعالیٰ کا جو حکم آئے بے دھڑک ان کو سناتے رہیں۔