أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۚ إِنَّنِي لَكُم مِّنْهُ نَذِيرٌ وَبَشِيرٌ
یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو میں تم کو اللہ کی طرف سے ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔
1۔ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّا اللّٰهَ: یعنی یہ قرآن اس لیے نازل کیا گیا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، بلکہ ہر رسول کو اللہ تعالیٰ نے اسی لیے بھیجا، فرمایا : ﴿ وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْۤ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ ﴾ [ الأنبیاء : ۲۵] ’’اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں، سو میری عبادت کرو۔‘‘ سورۂ نحل (۳۶) میں بھی ہر رسول کے بھیجنے کا مقصد ایک اللہ کی عبادت کا حکم اور طاغوت سے اجتناب کی تاکید بیان فرمایا ہے۔ 2۔ اِنَّنِيْ لَكُمْ مِّنْهُ نَذِيْرٌ وَّ بَشِيْرٌ : چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے گھر والوں ام المومنین خدیجہ، زید، علی اور اپنے خاص دوست ابوبکر رضی اللہ عنھم کے سامنے اللہ کا حکم پیش کیا، وہ ایمان لے آئے، پھر جب یہ آیت اتری : ﴿وَ اَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ ﴾ [ الشعراء : ۲۱۴ ] ’’اور اپنے سب سے قریب رشتہ داروں کو ڈرا‘‘ تو آپ نے کوہ صفا پر چڑھ کر قریش کے قبائل کو آواز دے کر جمع کیا اور ان تک اللہ کا پیغام پہنچایا۔ [ بخاری : ۴۷۷۰ ] پھر اللہ تعالیٰ کے اس حکم کے تحت : ﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيْرًا وَّ نَذِيْرًا ﴾ [ سبا : ۲۸ ] تمام دنیا کے لوگوں کو اللہ کے عذاب سے ڈرانے اور اس کے ثواب کی خوش خبری کا پیغام پہنچانے کا کام شروع کیا۔ چنانچہ دوسرے ملکوں سے پہلے جزیرۂ عرب کے لوگوں تک نرمی اور محبت کے ساتھ اور پھر جہاد فی سبیل اللہ کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچایا اور ان سب کو اسلام کے جھنڈے تلے جمع کیا، پھر تمام دنیا کے بادشاہوں کو خطوط لکھے، جن میں بشارت بھی تھی اور نذارت بھی۔ چنانچہ روم کے فرماں روان ہرقل کو خوش خبری دی کہ تم مسلمان ہو جاؤ تو سلامت بھی رہو گے اور اللہ تعالیٰ تمھیں دوہرا اجر دے گا اور ڈرایا بھی کہ اگر تم نے اسلام سے منہ موڑا تو تمھاری رعایا کے کفر کا بوجھ بھی تمھاری گردن پر ہو گا۔[بخاری : ۷] دوسرے تمام حکمرانوں تک بھی یہ پیغام پہنچایا، پھر آپ کے خلفاء نے مشرق سے مغرب تک یہ پیغام پہنچا دیا۔